پاکستان نے اپنے قیام سے لے کر اب تک 4 مارشل لاء دیکھے،7 اکتوبر 1958 میں ایوب خان لیکراکتوبر 1999 تک پرویز مشرف کے مارشل لاء تک ملک پر پڑنے سیاسی و معاشی اثرات اور دیگر نتائج اب بھی زیر بحث آتے ہیں۔
پہلے مارشل لاء والے روز ہی 65 برس قبل دنیا میں آنکھیں کھولنے والے ’مارشل لاء خان‘ کی زندگی بھی اپنے انوکھے نام کی نسبت کئی حوالوں سے یادگار ہے۔
آزاد کشمیر کے شہرراولاکوٹ کے نواحی علاقے ٹائیں کے رہائشی کا نام گھر والوں نے اسی روز پیدائش کے باعث ’مارشل لاء‘ ہی رکھ ڈالا 18 سال کی عمرمیں مارشل لاء محاذ اللہ ہو گئے مگر اپنے علاقے میں ان کےتعارف کا پہلا حوالہ اب بھی یہی ہے۔
اردو نیوز سے خصوصی گفتگو میں مارشل لاء خان نے بتایا کہ وہ نام تبدیل کرلینے کے باوجود اپنے پُرانے نام سےایک خاص انسیت محسوس کرتے ہیں، یہ انہیں دیگر لوگوں سے منفرد ہونے کا احساس دلاتا ہے۔
انہوں نےبتایا کہ 1977 میں جب ضیاء الحق کا مارشل لاء نافذ ہوا تو وہ کراچی میں تھے۔ایک شام فوجی جوان لوگوں کو مارکیٹ سے اگھروں کو جانے کا کہہ رہے تھے۔ نوعمری کی وجہ سے انہوں نے اس بات کو قابل توجہ نہ جانا، اتنے میں ایک فوجی جوان نے پاس آکر نام دریافت کیا۔
محاذ اللہ نے جواب دیا، ’میں مارشل لاء ہوں‘۔ یہ سُنتے ہی فوجی اہلکار نے غصے میں انہیں ایک تھپڑ رسید کیا اور کہا، مارشل لاء ہم ہیں’۔
اس واقعے نے مارشل لاء کو احساس دلایا کہ ان کے اس انوکھے نام کا مطلب کچھ اور بھی ہوسکتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ میں آزاد کشمیر رجمنٹ میں بھرتی ہونے کیلئے مانسر کیمپ گیا تو نام بتانے پر جواب ملا ، ’یہ کیا نام ہوا‘۔ میرے ایک عزیزکرنل ظفر صاحب بھی وہاں موجود تھے جنہوں نے میری بھرتی یقینی بنانے کے لیے وہیں کھڑے کھڑے میرا نام محاذ اللہ رکھ دیا۔
مارشل لاء سے محاذ اللہ ہونے کے باوجود پرانے نام سے رشتہ نہیں ٹوٹا۔ فوج میں اکثرساتھی انہیں ’مارشل لاء‘ نام لیکرچھیڑتے تھے۔ یونٹ میں جب گاؤں کا کوئی بندہ ملنے آتا تو پرانے نام سے ہی ان کا پتہ جانتا۔
محاذ اللہ نے فوج میں 18 برس ملازمت کے بعد ریٹائرمنٹ لے لی اور نئی ملازمت سپریم کورٹ میں بطور ڈرائیور شروع کی۔
انہوں نے بتایا کہ، ’چیف جسٹس سجاد علی شاہ سے لیکر چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ تک سارے چیف جسٹس حضرات کے ساتھ بطور ڈرائیور ڈیوٹی کی۔ عدلیہ کی تاریخ کے بہت سارے واقعات کا عینی شاہد بھی ہوں‘۔
مارشل لا خان کے مطابق سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری ان کا بہت خیال رکھتے تھے۔ریٹائرمنٹ کے بعد بھی وہ کئی ذاتی مسائل کے حل کیلئے افتخار چوہدری صاحب سے مدد لیتے رہتے ہیں۔ افتخار چوہدری کی تعریف کرنے پرجسٹس عبدالحمید ڈوگر نے مارشل لاءخان کو چیف جسٹس کے ساتھ ڈیوٹی سے ہٹا دیا تھا۔
محاذ اللہ خان سپریم کورٹ سے ریٹائرمنٹ کے بعد آج کل فیملی کے ہمراہ آبائی علاقے میں رہائش پذیر ہیں ۔