اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے عرب گروپ کی پیش کردہ غزہ میں فوری طور پر انسانی بنیادوں پر جنگ بندی کی قرارداد کثرت رائے سے منظور کرلی۔
193 رکنی کمیٹی نے 22 عرب ممالک کے گروپ کی جانب سے تیار کردہ قرارداد کو 120 کے مقابلے میں 14 کے فرق سے منظور کیا۔
اسرائیل، امریکا اور آسٹریا سمیت 14 اراکین نے قرارداد کے مخالفت میں ووٹ دیا جبکہ بھارت، جرمنی، اٹلی اور برطانیہ سمیت 45 ارکان غیر حاضر رہے۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق ووٹنگ سے قبل اردن کے وزیر خارجہ ایمن صفادی نے کہا کہ قرارداد کے خلاف ووٹ دینے کا مطلب اس احمقانہ جنگ و قتلوں کی منظوری دینا ہے۔
یہ قرارداد غیر پابند ہے یعنی فریق اس پر عمل کرنے کے پابند نہیں مگر قرارداد عالمی رائے عامہ کے بیرومیٹر کے طور پر کام کرتی ہے کیونکہ اسرائیل اور حماس کے درمیان لڑائی اپنے تیسرے ہفتے کے اختتام کے قریب ہے جب کہ اس معاملے پر اقوام متحدہ کا یہ پہلا ردعمل ہے۔
اقوام متحدہ میں منظور ہونے والی اس قرارداد میں حماس کا ذکر شامل نہیں تھا جس پر اسرائیل بھڑک اٹھا اور اقوام متحدہ کی قرارداد کو مسترد کرتے ہوئے اپنی دھمکیوں کو دوہرا دیا۔
اسرائیلی مندوب کا گیلاد ایردن کا کہنا تھا کہ شرم آنی چاہیے، آج کا دن اقوام متحدہ کے لئے ایک بدنما دھبہ ہے کیونکہ آج ہم نے دیکھا اقوام متحدہ کی ایک اونس کے برابر بھی وقعت نہیں رہی اور اس کی کوئی قانونی حیثیت باقی نہیں۔
اسرائیلی مندوب نے اپنی دھمکیاں دوہراتے ہوئے کہا کہ اسرائیل حماس کے خلاف ہر حد تک جائے گا، ہم اپنا دفاع جاری رکھیں گے، دنیا سے حماس کا خاتمہ کرکے ہم اپنے مستقبل اور اپنے وجود کا دفاع کریں گے۔
غزہ میں جنگ بندی سے متعلق قرارداد منظور ہونے پر امریکی سفیر لینڈا تھومس گرین فیلڈ نے بھی اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کیا، انہوں نے کہا کہ انتہائی افسوسناک بات ہے کہ اس قرارداد میں 7 اکتوبر کے دہشت گرد حملے کا ذکر ہی نہیں۔
دوسری جانب حماس نے اقوام متحدہ کی قرارداد کا خیرمقدم کیا اور غزہ میں سویلینز کے لئے انسانی امداد و ایندھن پہنچانے کا مطالبہ کیا ہے۔
فلسطینی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ غزہ میں اسرائیل بربریت کی نئی اونچائیوں کو پہنچ چکا تھا، بین الاقوامی برادری نے اسرائیلی پاگل پن اور جارحیت کو روکنے کیلئے واضح پوزیشن اختیار کی ہے۔
اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے فلسطین میں اسرائیلی جارحیت کی مذمت کی اور کہا کہ اسرائیلی فوج غزہ کے عام شہریوں پر حملے کر رہی ہے۔
منیر اکرم کا کہنا تھا کہ اسرائیل فلسطینوں کےحقوق بری طرح پامال کر رہا ہے، اسرائیل غزہ پر حملے فی الفور بند کرے اور چاہتے ہیں کہ فلسطینیوں کے لئے امداد کی ترسیل یقینی بنائی جائے۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اردن کی جانب سے پیش کی گئی قرارداد کو غزہ میں پیدا ہونے والے انسانی بحران اور اسرائیلی بمباری کے خاتمے کے لئے 50 کے قریب دیگر ممالک نے بھی کو اسپانسر کیا۔
قرارداد میں مطالبہ کیا گیا کہ اقوام متحدہ سمیت دیگر انسانی بہبود کی تنظمیوں کو غزہ میں لوگوں تک پانی، کھانا، دوائیں، ایندھن اور بجلی سمیت بنیادی ضروریات کا امدادی سامان بلا رکاورٹ پہنچانا چاہیے۔
قرارداد میں اسرائیل اور فلسطین دونوں طرف سویلینز کے خلاف تشدد کے تمام اقدامات سمیت ہر قسم کی دہشتگردی کی مذمت کی گئی تاہم قرارداد کے متن میں حماس کا ذکر نہیں کیا گیا۔
اس سے قبل اقوام متحدہ نے کینیڈا کی جانب سے پیش اور امریکی حمایت یافتہ ترمیم مسترد کردی جس میں 7 اکتوبر کو اسرائیل پر کیے گئے حماس کے حملوں کو دہشت گرد حملے قرار دیتے ہوئے واضح طور پر مذمت کی گئی تھی جب کہ اس میں یہ بھی مطالبہ کیا گیا تھا کہ یرغمالیوں کو حماس فوری رہائی دے۔