پاکستان میں راج نیتی کی نئی بساط کا معاملہ ایک خاص موڑ پر پہنچ گیا ہے، گزشتہ چند روز سے پاکستان کی سیاست ایک نیا موڑ لیتی نظر آرہی ہے، سیاسی جماعتوں کے درمیان گرینڈ ڈائیلاگ پر کام شروع ہوگیا ہے، کئی سالوں کے سیاسی مخالف جہاں ایک دوسرے کے دروازے پر پہنچ رہے ہیں، وہیں سب برملا یا ڈھکے چھپے الفاظ میں سیاسی ڈائیلاگ اور مفاہمت کی بات بھی کر رہے ہیں۔
پاکستان مسلم لیگ ن کے سینیئر رہنما اور سابق وزیر دفاع خواجہ آصف کی طرف سے گرینڈ ڈائیلاگ کی بات اور پاکستان تحریک انصاف کے وفد کی مولانا فضل الرحمان سے ان کی ساس کی وفات کی تعزیت کے لئے ملاقات سیاسی فضاء میں پھیلی کئی سالوں کی تلخیوں کے خاتمے کی طرف ایک اچھی کوشش جانی جا رہی ہے۔
مولانا فضل الرحمان سے پی ٹی آئی وفد کی ملاقات اسی گرینڈ ڈائیلاگ کی ایک کڑی تھی، اس سے قبل مولانا فضل الرحمان اور آصف علی زرداری کے درمیان ملاقات میں بھی گرینڈ ڈائیلاگ پر بات چیت کی گئی۔
اس حوالے سے جلد مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف سے بھی مولانا فضل الرحمان کی ملاقات بھی متوقع ہے۔
دوسری جانب سینیٹرز کا کہنا ہے کہ گرینڈ ڈائیلاگ ضرور ہونا چاہئے، یہ وقت کی ضرورت ہے لیکن اس میں ضروری ہے کہ معیشت سمیت تمام مسائل پر بات ہو۔
اس پر جب ہم نے رائے جانی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) خیبرپختونخوا کے ترجمان بیرسٹر محمد علی سیف کی تو انہوں نے گرینڈ ڈائیلاگ کو ایک خوش آئند تجویز قرار دیتے ہوئے سیاسی مفاہمت کو وقت کی ضرروت قرار دے دیا۔
بیرسٹر محمد علی سیف کا کہنا تھا کہ ’سیاست ہم پاکستان کی خدمت کیلئے کر رہے ہیں، پاکستان کی ترقی اور پاکستانی عوام کی فلاح و بہبود کیلئے ہر سیاسی پارٹی کرتی ہے ہر سیاسی پارٹی کا منشور عوام دوست ہوتا ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ ’میں یہ سمجھتا ہوں کہ کیوں نہ اس منشور کے مقاصد کو حاصل کرنے کیلئے جو طریقہ کار ہے اس میں بھی محبت دوستی اور مفاہمت کا طریقہ استعمال کیا جائے‘۔
جمیعت علماء اسلام (ف) کے ترجمان جلیل جان نے مؤقف دیتے ہوئے کہا کہ گزشتہ ساڑھے 4 سال میں سابق وزیر اعظم نے سیاسدانوں سے ہاتھ ملانا بھی گوارا نہیں کیا اور اگر اب ان کی جماعت کی طرف سے پہل ہوئی ہے اور وہ ہمارے پاس آئے ہیں تو ہم بھی مل بیٹھ کر ملک کو آگے لے جانے کا سوچیں گے۔
انہوں نے کہا کہ ’پی ٹی آئی کا جو وفد مولانا فضل الرحمان سے ملاقات کیلئے آیا ہے، ہم سمھتے ہیں کہ ان کی سوچ بدل گئی ہے، انہیں شعور آگیا ہے کہ سیاست دانوں کے ساتھ بیٹھ کر ہی مسائل حل ہوسکتے ہیں‘۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے صوبائی ترجمان امجد آفریدی کا کہنا تھا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی تو ہمیشہ سے ہی رائے رہی ہے کہ سیاست بغیر ڈائیلاگ کے ہو ہی نہیں سکتی۔
پیپلز پارٹی کے سینیٹر بہرہ مند تنگی کا کہنا ہے کہ ڈائیلاگ ضرور ہونا چاہئے لیکن اس میں چیئرمین پی ٹی آئی کو شامل نہیں کیا جاسکتا۔
مسلم لیگ ن کے سینیٹر ڈاکٹر افنان احمد کا کہنا تھا کہ ملک کو آگے بڑھانے کے لئے سب جماعتوں کے درمیان سیاسی مزاکرات ہونے چاہئیں۔
خیال رہے کہ مولانا فضل الرحمان پہلے ہی سیاسی جماعتوں کو ایک دوسرے کے لئے اسپیس پیدا کرنے کا مشورہ دے چکے ہیں۔
خیبر پختونخوا کی تمام سیاسی جماعتیں اس ایک نقطے پر متفق نظر آئیں کہ غیر جمہوری قوتوں کو مسند پر قابض ہونے کا جواز دینے کی بجائے سیاستدانوں کا ایک ساتھ بیٹھ جانا بہتر ہے۔