فلسطین اور اسرائیل میں جاری کشیدگی پوری دنیا میں توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہے، مسلم دنیا کی جانب سے خصوصاً خواتین اور بچوں پر اسرائیلی بربریت کی ہر ممکن مذمت کی جا رہی ہے۔
فلسطین سے اظہارِ یکجہتی کیلئے ہر سوں فلسطینی پرچم لیے مظاہرے کیے جارہے ہیں، نہ صرف فلسطینی پرچم بلکہ فلسطین کی حمایت کیلئے مخصوص اسکارف بھی دیکھا جارہا ہے۔
فلسطینی اسکارف جسے ’کیفیہ‘ کہا جاتا ہے، اس کشیدگی کے بعد سے ہی تنازعات کا شکار ہورہا ہے۔
یہ اسکارف جس کو آج ’فلسطینی کیفیہ‘ کہا جاتا ہے، میسوپوٹیمیا میں سمیریوں اور بابل کے زمانے کی ایک دلچسپ تاریخ رکھتا ہے۔
اسے شیمغ اسکارف، عرب اسکارف ، فلسطینی ہٹہ، یمیغ اور آئیگل بھی کہا جاتا ہے۔
حضورﷺ بھی شیمغ پہنتے تھے، 1930 کی دہائی کی عرب بغاوت کے دوران مردوں کی طرف سے پہنے جانے والے سیاہ اور سفید کیفیہ فلسطینی قوم پرستی کی علامت بن گئے ہیں۔
1960 کی دہائی کے دوران فلسطینی مزاحمتی تحریک کے آغاز اور فلسطینی سیاست دان یاسر عرفات کے اپنانے کے ساتھ کیفیہ کی اہمیت میں اضافہ ہوا۔
بلیک اینڈ وائٹ فش نیٹ پیٹن کیفیہ بعد میں عرفات کی علامت بن گیا۔
5 دہائیاں قبل فلسطین میں 30 سے زیادہ کیفیہ فیکٹریاں کام کر رہی تھیں جبکہ آج حبرون میں صرف ایک فیکٹری ہے۔
فیکٹری 1961 میں قائم کی گئی تھی جس میں 15 سے زیادہ مشینیں اس میں استعمال کی جاتی تھیں، اب فیکٹری میں صرف 4 مشینیں اور 15 سے 25 کارکن کام کرتے ہیں۔
کیفیہ مشرق وسطیٰ کا روایتی اسکارف ہے جو ایک میٹر کے اسکارف سے بنایا جاتا ہے، یہ عام طور پر کپاس سے بنایا جاتا ہے۔
کچھ دیگر فیکٹریاں اسے پولیسٹر اور کپاس سے ملا کر بناتی ہیں تو کچھ صرف پولیسٹر سے ہی تیار کرتی ہیں۔
بہترین معیار کے لیے کچھ فیکٹریاں جیسے ہیبرون اس کو 100 فیصد کپاس سے ہی بناتی ہیں۔
کیفیہ فلسطین میں بہت سے لوگوں کے درمیان ایک متنازع موضوع ہے، جس کی بنیادی وجہ اصل سیاہ-سفید اور لال-سفید رنگ کے بجائے استعمال ہونے والے مختلف رنگ ہیں۔
مغرب میں بہت سے لوگ کیفیہ خریدتے اور پہنتے ہیں، جس سے یہ ایک فیشن ٹرینڈ میں تبدیل ہوگیا ہے۔
یورپ میں دو سال قبل یہ رجحان عروج پر تھا اور بہت کم لوگ اس کی حقیقت جانے بغیر اسے پہنتے تھے۔
کیفیہ پرنٹ کو کئی بار ’ٹاپ شاپ‘، ’اے ایس او ایس‘، ’سیسیلی کوپن ہیگن‘، ’بوہو‘ یا اسرائیلی برانڈ ’ڈوڈو بار‘ جیسے برانڈز کی جانب سے فیشن میں استعمال کیا گیا ہے، جس سے ثقافتی استحصال کے بارے میں مزید تنازعات اور مباحثوں نے جنم لیا ہے۔
2007 میں امریکی کپڑوں کی دکانوں کی چین اربن ’آؤٹ فٹرز‘ نے ’ایک اسرائلی حمایت یافتہ کارکن‘ کی تنقید کا سامنا کرنے کے بعد کیفیہ کی فروخت بند کر دی تھی۔
فلسطین کی حمایت میں کیفیہ پہننے پراکثر مختلف سیاسی دھڑوں کی جانب سے تنقید کی جاتی ہے۔ ’کیفیہ کنڈرلچ‘ سے مراد بائیں بازو کے امریکی یہودی کالج کے طالب علم ہیں، جو سیاسی طرز کے بیان کے طور پر گردن میں اسے پہنتے ہیں۔
اگرچہ مغربی مظاہرین نے مختلف انداز اور رنگ کے کیفیہ پہن رکھے ہیں، لیکن سب سے نمایاں سیاہ اور سفید کیفیہ ہے۔ یہ عام طور پر گردن کے ارد گرد ایک نیک کرچیف کی طرح پہنا جاتا ہے۔
یہ صرف سامنے والے حصے میں باندھا جاتا ہے اور باقی کپڑے کو پیچھے کیا جاتا ہے۔