اسلام آباد ہائی کورٹ نے سائفر کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی ضمانت اور اخراج مقدمہ کی درخواستیں مسترد کر دیں۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس عامر فاروق نے عمران خان کی سائفر کیس کے اخراج کی درخواست اور ضمانت کی درخواستیں مسترد کیں جس کا تحریری فیصلہ بھی جاری کردیا گیا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے تفصیلی فیصلے میں کہا کہ استغاثہ کا کیس ہےکہ وزارت خارجہ نے سائفر کو ڈی کوڈ کر کے پرائم منسٹر سیکرٹریٹ کو بھجوایا۔
فیصلے میں کہا گیا کہ استغاثہ کے مطابق سائفر کے مندرجات کو ٹوئسٹ کر کے سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کیا گیا، دفتر خارجہ کے افسران کے بیانات سے واضح ہے کہ اس میں کوئی غیر ملکی سازش شامل نہیں۔
تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ ٹرائل کورٹ کی آبزرویشنز سے کسی قسم کا تعصب ظاہر نہیں ہوتا، عمران خان نے خفیہ دستاویزات اپنے پاس رکھیں اور پھر گما دیں۔
عدالت نے کہا کہ بادی النظر میں مقدمے میں آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی سیکشن 5 کا اطلاق ہوتا ہے، ہائی کورٹ 23 اکتوبرکے آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی عدالت کےفیصلے میں مداخلت نہیں کرسکتی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ پٹیشنر کا سائفر سے متعلق سیاسی اجتماع سے خطاب بطور وزیراعظم ادا کی جانے والی ذمہ داریوں میں نہیں آتا۔
واضح رہے کہ 16 اکتوبر کو عدالت نے چیئرمین عمران خان کی ضمانت اور اخراج مقدمہ کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
ایف آئی اے کے اسپیشل پراسیکیوٹر راجہ رضوان عباسی نے دلائل میں کہا تھا کہ چیئرمین پی ٹی آئی نے سائفر کی معلومات پبلک تک پہنچائیں جس کے وہ مجاز نہیں تھے، یہ سائفر ایک سیکرٹ ڈاکومنٹ تھا جس کی معلومات پبلک نہیں کی جا سکتی تھیں۔
راجہ رضوان کا کہنا تھا کہ سیکرٹ دستاویز کی معلومات پبلک کرنے پر آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت اس جرم کی سزا 14 سال قید یا سزائے موت بنتی ہے۔
واضح رہے کہ مارچ 2022 میں ایک جلسے کے دوران اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان نے اپنی جیب سے خط نکال کر دعویٰ کیا تھا کہ ان کے خلاف اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد ان کی بیرونی پالیسی کے سبب ’غیر ملکی سازش‘ کا نتیجہ تھی اور انہیں اقتدار سے ہٹانے کے لیے بیرون ملک سے فنڈز بھیجے گئے۔
سابق وزیراعظم عمران خان کے سابق پرنسپل سیکرٹری اعظم خان نے سائفر سے متعلق اپنا بیان ریکارڈ کرایا تھا جس میں انہوں نے سائفر کو ایک سوچی سمجھی سازش قرار دیا۔
سابق پرنسپل سیکرٹری اعظم خان نے 164 کے تحت مجسٹریٹ کے سامنے اعترافی بیان ریکارڈ کرایا تھا۔