نگراں وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی کے جلسوں پر پابندی کی کوئی پالیسی نہیں، چیئرمین پی ٹی آئی کے مستقبل کا فیصلہ عدالتی کیسز کی روشنی میں ہوگا، 9 مئی کے بعد میں نے چیئرمین پی ٹی آئی کے حوالے سے اپنا مؤقف تبدیل کیا، میں نے 2013 اور 2018 میں چیئرمین پی ٹی آئی کو ووٹ دیا تھا۔
نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے نگراں وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے کہا کہ میں اس ملک کا شہری ہوں، دوبارہ پریس کانفرنس کی تو الفاظ شاید مختلف ہوں، پریس کانفرنس میں موضوع یہی رکھوں گا، میں نے ورکنگ جرنلسٹس کے مسائل کو بھی اجاگر کیا تھا، سینیٹ کی انفارمیشن کمیٹی کا ممبر تھا وہاں بھی بات کی۔
نگراں وزیراعظم نے کہا کہ ہزاروں کی تعداد میں غیرقانونی مقیم افراد جاچکے ہیں، ڈیڈ لائن ختم ہونے پر غیرقانونی افغانوں کو پکڑ کر نکالا جائے گا، غیرقانونی افراد کی واپسی کے حوالے سے افغان حکومت بھی تیار ہوگئی۔
انوار الحق کاکڑ کا کہنا تھا کہ بہت اہم کیسز میں ڈی این اے ٹیسٹ کی جانب جاسکتے ہیں، نئے چیئرمین نادرا کی سربراہی میں کمیٹیز بن چکی ہیں، غیرقانونی مقیم افراد کے لیے فلٹریشن کا ایک پورا عمل ہے، غیرقانونی مقیم افراد کو پکڑ کر ڈی پورٹ کریں گے، افغان حکومت بھی اپنے شہریوں کو لینے کے لیے تیار ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ قانونی راستہ موجود ہے اس سے پاکستان آسکتے ہیں، ہم کوئی افغانستان سے اپنا رشتہ ختم نہیں کرنے جارہے، افغان سائیڈ سے پاکستان کے لیے کبھی اچھے جذبات نہیں دیکھے، افغانی بارڈر لائن اور ڈیورینڈ لائن کو نہیں مانتے، ہم نے 50 لاکھ لوگوں کی 50 سال کے قریب مہمان نوازی کی ہے۔
نگراں وزیراعظم نے کہا کہ میرے بیٹے کو پتہ ہے افغانستان سے ٹی ٹی پی کی تشکیل ہوتی ہے، ٹی ٹی پی کے حملوں کا افغانوں کے بھیجے جانے سے گہرا تعلق ہے، ٹی ٹی پی کے لوگوں کی کوئی قانونی حیثیت ہے تو بتا دیا جائے، بہت ساری جگہوں پر خاموشی ایک ہتھیار ہوتی ہے، پاکستانیوں کی جان کی حفاظت کے آپشنز سے نہ شرمائیں گے نہ جھکیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے جتنا ممکن ہوا شفاف الیکشن کروانا ہے، تمام سیاسی جماعتوں کے لیے لیول پلیئنگ فیلڈ ہونی چاہیئے، عوام نے جس بھی جماعت کو چاہے مینڈیٹ دینا ہے، تمام سیاسی جماعتوں کو سیاسی سرگرمیوں کی اجازت ہونی چاہیئے۔
انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ پی ٹی آئی والے جس جلسے پر ریڈ کا کہہ رہے ہیں تو معلومات لے لوں گا، اگر 9 مئی سے قبل ایسا ماحول ہوتا تو کوئی بھی جواز نہ ہوتا، کسی بھی سیاسی جماعت کی حوصلہ شکنی ہماری پالیسی نہیں، لیول پلیئنگ فیلڈ، پیپلزپارٹی میں کئی آوازیں اٹھ رہی ہیں۔
نگراں وزیراعظم نے مزید کہا کہ آج سے 6 ماہ قبل بلوچستان میں پیپلز پارٹی کے لیے ایسا تاثر تھا، تاثر تھا بلوچستان میں پیپلزپارٹی کے لیے تیاری کی جارہی ہے، ہر سیاسی جماعت الیکشن کے لیے ایسا تاثر بناتی رہتی ہے، میں اس چیز کو زیادہ اہمیت نہیں دیتا، الیکشن کمیشن نے الیکشن کنڈکٹ کرنا ہے ہم نے ساتھ دینا ہے۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ بلوچستان میں ایک اقلیتی پارٹی والے شخص کو وزیراعلیٰ بنایا گیا تھا، چیئرمین پی ٹی آئی کو 1996 میں انہوں نے آرٹیکل لکھا تھا تب سے فالو کررہا ہوں، 9 مئی کے بعد میں نے چیئرمین پی ٹی آئی کے حوالے سے اپنا مؤقف تبدیل کیا، میں نے 2013 اور 2018 میں چیئرمین پی ٹی آئی کو ووٹ دیا،