پشاور کی فصیل شہر کو جوڑنے والے سولہ تاریخی دروازوں میں سے صرف دو اپنی اصلی حالت میں موجود ہیں۔ قدیم 14 دروازوں کے نقوش تک مٹ چکے ہیں۔
دو ہزار سال سے زائد عرصے پر محیط قدیم تاریخ رکھنے والے شہرِ پشاور کے گرد سکھ اور انگریز حکمرانوں نے آبادی کو حملوں اور ڈاکوؤں سے بچانے کی خاطر ایک فصیل تعمیر کی تھی۔
اس قلعہ نما فصیل سے باہر آنے جانے کے لئے مختلف سمتوں میں سولہ بڑے دورازے رکھے گئے۔
یہ تاریخی دروازے کابلی، لاہوری، کوہاٹی، گنج، آسامائی، کچہری، ہشتنگری، یکہ توت، سرآسیہ، ریتی، سردچاہ، باجوڑی، رامداس، ڈبگری، نیو رامپورہ اور شرقی کے ناموں سے جانے جاتے ہیں۔
آرکیالوجی ڈپارٹمنٹ کے ریسرچ آفیسر بخت محمد نے آج نیوز کو بتایا ہکہ تاریخی سولہ دروازوں میں صرف دو ہی اپنی اصلی حالت میں موجود ہیں۔ قانونی طور پر دروازوں کی حفاظت کی ذمہ داری آرکیالوجی ڈپارٹمنٹ کے پاس ہے۔
ورثے کی حفاظت قوموں کی اپنی تاریخ سے محبت کی عکاس ہوتی ہے لیکن پشاور میں سٹی وال اور تاریخی دروازوں کے نقوش کا مٹنا لمحہ فکریہ ہے۔