خود کو سراہنے کی صفت صرف حضرت انسان میں ہی نہیں پائی جاتی، نئی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ پرندے بھی اپنا عکس پہچاننے کے قابل ہوسکتے ہیں۔
آئینے میں خود کو پہچاننے کی صلاحیت اب تک مٹھی بھرجانوروں میں ہی پائی گئی ہے، جن میں ہاتھی، ڈولفن، بڑے بندر، کچھ مچھلیاں اور پرندے شامل ہیں۔
بون یونیورسٹی میں اس تحقیق کے مصنفین میں سے ایک سونجا ہلیمیچر کا کہنا ہے کہ جو جانور آئینے میں خود کو پہچان سکتے ہیں وہ اکثر زیادہ جدید علمی صلاحیتوں کے حامل ہوتے ہیں اور ان کا تعلق سماجی اور جذباتی ذہانت کے ساتھ ساتھ خود آگاہی سے بھی ہوتا ہے۔
نئی تحقیق کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ، ’یہ صلاحیت شعورکا ایک بنیادی پہلو اور ہمارے لیے بنیادی ہے۔ ہمارے نتائج مرغیوں میں شعور کی ایک سطح کی نشاندہی کرتے ہیں جو جانوروں کے حقوق اور فلاح و بہبود کے بارے میں بات چیت کی ترغیب دیتی ہے‘۔
ہلیماچر اور ان کے ساتھیوں نے نوٹ کیا ہے کہ اگر مرغے کو فضائی خطرہ نظر آتا ہے تو وہ اپنے ساتھیوں کو پکارتے ہیں،تاہم ، یہ عام طور پر خطرے کی گھنٹی نہیں بجاتا کیونکہ یہ شکاری کی توجہ اپنی طرف مبذول کرسکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پہلے سیٹ میں ، ٹیم نے انڈور جگہ کے دو حصوں میں سے ایک میں مرغے کو رکھا۔ دوسرے حصے میں انہوں نے یا تو ایک آئینہ، دوسرا مرغا رکھا، یا اسے خالی چھوڑ دیا۔
اس کے بعد ٹیم نے پہلے مرغے والے حصے کی چھت پر اڑنے والے باز کی تصویر پروجیکٹ کی۔
58 مرغوں پر کی جانے والی تحقیق کے نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ پرندوں نے اس وقت کہیں زیادہ الارم کالز کیں جب کوئی دوسرا مرغا انہیں نظر آ رہا تھا، اوسطا تین ٹیسٹوں میں فی پرندے کو 1.33 الارم کالز موصول ہوئیں، جب وہ اکیلے (اوسطا 0.29 کالز) یا آئینے (اوسطا 0.43 کالز) کا سامنا کرتے تھے۔ ٹیم کو کالز میں اسی طرح کی کمی اس وقت ملی جب انہوں نے آئینے کے پیچھے ایک دوسرے مرغے کو نظروں سے اوجھل کردیا۔
ٹیم کا کہنا ہے کہ نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ پرندے اپنے عکس کو ایک اور مرغے کے طور پر نہیں دیکھتے، یہاں تک کہ جب ان کے ساتھ دوسرے پرندے کی بو اور آواز بھی آتی تھی۔ اگرچہ اس سے یہ اشارہ مل سکتا ہے کہ مرغے خود کو آئینے میں پہچان سکتے ہیں ، لیکن ٹیم کا کہنا ہے کہ ایک اور امکان ہے۔
ہلیماچر کے مطابق ’یہ بھی اتنا ہی ممکن ہے کہ مرغے اپنے عکس کو اپنی ہر حرکت کی نقل کرتے ہوئے اپنی نسل کا ایک عجیب رکن سمجھتے تھے، جس کی وجہ سے وہ جھنجھلاہٹ کی وجہ سے خطرے کی گھنٹی نہیں نکالتے تھے۔
محققین نے آئینے میں اپنیشناخت کی جانچ پڑتال کے لیے ایک روایتی ”مارک ٹیسٹ“ کا بھی استعمال کیا۔ ان تجربات میں، 18 مرغوںکی چونچ کے بالکل نیچے، سینے پر گلابی یا شفاف پاؤڈررکھا تھا، ایک ایسی جگہ جو وہ عام طور پر نہیں دیکھ سکتے۔
اس کے بعد پرندوں کے رد عمل کو آئینے کی موجودگی اور عدم موجودگی میں ریکارڈ کیا گیا تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ آیا انہوں نے دیکھا اور سمجھا کہ یہ نشان ان کے جسم پر ہے یا نہیں ۔
نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ جب پرندے خود کو چھوتے تو ان کے رویے میں کوئی فرق نہیں ہوتا جب آئینہ موجود ہوتا ہے ، یا اگر نشان گلابی یا شفاف ہوتا ہے۔
ٹیم کا کہنا ہے کہ نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ جانور کے قدرتی سیاق وسباق کو مدنظررکھتے ہوئے آئینے کے ٹیسٹ میں ترمیم کی جانی چاہئیے۔
محققین کا کہنا ہے کہ اگر مرغے اپنے عکاس اور کسی مخصوص شخص کی نظر کے درمیان فرق کرسکتے ہیں تو اس بات کا امکان ہے کہ یہ ادراکی صلاحیت پہلے کے اندازوں سے کہیں زیادہ وسیع ہے۔