سارہ انعام قتل کیس کے مرکزی ملزم شاہنواز امیر نے 342 کا بیان قلمبند کروا دیا ہے ساتھ ہی، اپنے اوپر لگائے گئے قتل کے تمام الزامات کی تردید کردی ہے۔
ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹس اسلام آباد میں سیشن جج ناصر جاوید رانا کی عدالت میں سارہ انعام قتل کیس کی سماعت ہوئی۔
مرکزی ملزم شاہنواز امیر نے آئندہ سماعت پر عدالت میں اپنے دفاع میں ثبوت پیش کرنے کا بیان دیا اور کہا کہ وہ قتل کے الزامات کی تردید کرتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ جولائی 2022 میں سارہ انعام نے اپنے والدین سے پوچھے بغیر مجھ سے نکاح کیا، میری اہلیہ کے والدین اور رشتہ دار ہماری شادی سے خوش نہیں تھے۔
شاہنواز امیر نے یہ بھی کہا کہ وقوعہ کی رات سارہ میرے گھر آئیں، والدہ نے ہمارے لیے کھانا بنایا، ہم تینوں نے کھانا ساتھ کھایا، خوب گپ شپ کی، پھر سونے چلے گئے، رات کو سارہ نیند سے اٹھ کر واش روم گئیں، میں تب سویا ہوا تھا، میں صبح 7 بجے اٹھا اور ناشتہ لینے ایف 8 مارکیٹ چلا گیا۔
شاہنواز امیر کا کہنا تھا کہ میں 9 بجے جب واپس آیا تو سارہ کمرے میں موجود نہیں تھیں، ڈھونڈنے پر سارہ انعام کو میں نے باتھ ٹب میں گرے ہوئے دیکھا، جب میں نے سارہ کو دیکھا تو ان کی موت واقع ہوچکی تھی جس کی موت سے میں ڈر گیا، والدہ کو بتایا جو دوسرے کمرے میں تھیں۔
ملزم نے کہا کہ والدہ ثمینہ شاہ نے والد ایاز امیر کو چکوال کال کرکے واقعے کے بارے میں بتایا، پولیس پہنچی تو میں نے تمام واقعہ انہیں بتایا لیکن مقدمہ میرے خلاف درج کردیا گیا۔
شاہنواز امیر نے مزید کہا کہ میرے اور میری فیملی کے خلاف من گھڑت جھوٹی کہانی بنا کر مقدمہ درج کیا گیا، میرے والد ایاز امیر صحافی ہیں، پی ٹی آئی کے حق اور پی ڈی ایم کے خلاف بولتے تھے، والد کی وجہ سے ہمیں انتقام کا نشانہ بنایا گیا۔
انہوں نے کہا کہ سارہ انعام باتھ روم میں سلپ ہوئیں، سر باتھ ٹب سے لگا اور موت واقع ہوئی، میری غیر موجودگی میں کسی نامعلوم شخص نے میری اہلیہ کو قتل کیا ہوگا۔
شاہنواز امیر نے کہا کہ پولیس نے جان بوجھ کر میرے گھر کی سی سی ٹی وی فوٹیج نہیں نکلوائی۔
عدالت نے سارہ انعام قتل کیس کی سماعت یکم نومبر تک ملتوی کردی۔