پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ اسٹبلشمنٹ کو پاکستان کے منظر نامے سے مکمل طور پر بے دخل کرنا ہے کہ تو سب کو مل کر بیٹھنا ہوگا۔
آج نیوز کے بروگرام ”فیصلہ آپ کا“ میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے خواجہ آصف نے کہا کہ عمران خان نے چار سال جس طرح اقتدار کا استعمال کیا، قومی خزانے کا شیرِ مادر کی طرح استعمال کیا، کس طرح 25، 40 ہزار روپے میں سوشل میڈیا وارئیرز بھرتی کیے جاتے تھے، پختونخوا حکومت ان کے فوج، اسٹبلشمنٹ اور امریکا مخالف بیانیے پر پیسہ لٹا رہی تھی۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان ’روٹی بھی اپنے پلے سے نہیں کھاتا، میں نے ایک دن اسمبلی میں کہا تھا اس کی جیبیں چیک کرو اس کی جیبیں خالی نظر آئیں گی، شام کو اس کی کوشش ہوتی ہے کہ کوئی آکر روٹی کھلا دے۔‘
خواجہ آصف نے کہا کہ شہباز شریف کی قیادت میں ہم نے 16 مہینے معاشی محاذ پر جنگ لڑی ہے، ہم کوئی فاتح نہیں ہوئے، لیکن ہم نے دفاع کرلیا، عزت آبرو کے ساتھ ہم اس سے نکل آئے۔ ملک اگر ڈیفالٹ ہوجاتا تو ڈالر 500 یا 600 پر چلا جاتا، اتنی معاشی ابتری پھیلنی تھی کہ کسی سے سنبھلنی نہیں تھی۔ ’پلان بھی یہی تھا، آپ ٹیلی فون کالیں دیکھیں، پھر جس طرح آئی ایم ایف کو خط و کتابت کی گئی یہ سب کچھ تھا، کہ ہمارے پاس نہیں رہا تو نہ کھیڈا گے نی کھیڈا دواں گے (نہ کھیلیں گے نہ کھیلنے دیں گے)‘۔
خواجہ آصف نے پی ٹی آئی کا نام لئے بغیر کہا کہ ان کے ذہنوں میں تصور بھی نہیں ہے کہ ہماری حکمرانی کے بغیر پاکستان کو وجود بھی سلامت رہ سکتا ہے، انہوں نے تباہ کرنے کی پوری کوشش کی۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ’75 سال میں صرف سیاستدان تو (اقتدار میں) میں نہیں رہے، یا تو اسٹبلشمنٹ نے براہ راست حکمرانی کی، اگر سویلین حکمرانی رہی بھی ہے تو اس میں بھی کسی حد تک عمل دخل کبھی بڑھ گیا کبھی کم ہوگیا لیکن اسٹبلشمنٹ کا رہا‘۔
انہوں نے کہا کہ اسٹبلشمنٹ کو مکمل طور پر پاکستان کے منظر نامے سے بے دخل کردیا جائے گا یہ ممکن نہیں، ’ممکن ہے، لیکن اس کیلئے جس طرح اس دن میاں صاحب نے اپنی تقریر میں کہا ہم سب کو مل کر بیٹھنا پڑے گا‘۔
خواجہ آصف کے مطابق یہ آئیڈیل سچویشن اس وقت ہی بنے گی جب ہمارے تمام تر ادارے، کچھ آئینی ادارے ہیں جیسے عدلیہ ہے، پارلیمنٹ ہے، ایگزیکیوٹیو ہے، اسٹبلشمنٹ ایک حقیقت ہے، میڈیا ہے جو ہماری سیاست میں بڑا کردار ادا کر رہا ہے، بڑے کاروبار ہیں ان سب کو اس میں شامل ہونا پڑے گا۔
انہوں نے کہا کہ اب کیونکہ الیکشن آنے والا ہے اور ہر بندے کو اپنے سیاسی مفادات کا سامنا ہے تو ہوسکتا ہے یہ پولیٹیکل ڈائیلاگ کامیاب نہ ہوسکے یا ہوسکتا ہے شروع ہی نہ ہوسکے۔ کبھی نہ کبھی ہمیں بھی اور باقی لوگوں کو بھی اپہنی سیاسی اوقات کا پتا لگ جائے گا اور اس کے بعد ڈائیلاگ ضرور ہونا چاہیے۔
خواجہ آصف نے کہا کہ ’میں سمجھتا ہوں باقی ادارے بھی جو جُز ہیں ہمارے پاور اسٹرکچر کے وہ (خود کو سیاست سے الگ کرنا) چاہتے ہیں‘۔
ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ عدلیہ کو بھی اپنے آپ کو سیاست سے پاک کرنا پڑے گا، عدلیہ میں بھی سیاست اتنی زیادہ اوور ڈوز ہوگئی ہے جس کا کوئی حساب نہیں۔ پچھلے چھ سات سال کے تمام فیصلے سیاسی ترجیحات پر کیے گئے ہیں۔
خواجہ آصف نے فوجی عدالتوں سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کی مخالفت بھی کی۔
ان کا کہنا تھا کہ ن لیگ نے نظر ثانی میں جانے کا ابھی فیصلہ نہیں کیا مگر ایک دو دن میں ہو جائے گا۔
خواجہ آصف نے کہا کہ ’میں سمجھتا ہوں عدلیہ سب سے بڑی مجرم ہے‘۔
ان کا کہنا تھا کہ عدالتوں میں کئی سال سے اسٹے آرڈر چل رہے ہیں، صرف ٹیکس کی مد میں 2 ہزار 670 ارب روپے کے کیسز میں اسٹے چل رہا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ایک فریق حملہ آور ہے اور دوسرا فریق فوج ہے تو کیس فوجی عدالت میں چلنا چاہئے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ الیکشن آرہے ہیں، سارے لوگ ایک ہی فیلڈ میں اتریں گے، میرا خیال ہے میاں صاحب سب سے ملیں گے۔
خواجہ آصف نے کہا کہ میں نے عدالت میں وکلاء سے سنا کہ جب فرد جرم عائد ہوجائے اور پھر سزا بھی سنا دی جائے تو ہوسکتا ہے نیب اس پوزیشن میں نہ ہو کہ کیس واپس لے سکے، یہ کورٹ ہی فیصلہ لے گی۔
انہوں نے کہا کہ میرے خیال میں نیب کیسز چلیں گے اور میرٹ پر فیصلہ ہوگا۔