بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے پاکستان کو 710 ملین (71 کروڑ) ڈالرز کے قرض کی دوسری قسط کے اجراء کے لیے 2 نومبر سے مذاکرات شروع کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ حکومت پُرامید ہے کہ بیرونی شعبے کے چیلنجز کے باوجود پروگرام کا جائزہ کامیابی سے مکمل کرلیا جائے گا۔
یہ مذاکرات 3 ارب ڈالرکے اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ کے تحت ملنے والے قرض کی اگلی قسط کے لیے ہوں گے۔ مذاکرات میں آئی ایم ایف ٹیم کی قیادت ناتھن پورٹر کریں گے۔ اگران سے پہلے حکومت کی جانب سےعام انتخابات کااعلان کردیاجاتا ہے، تو مذاکرات کے دوران وزارت خزانہ کے ہاتھ مزید مضبوط ہوں گے۔
ریزیڈنٹ نمائندہ آئی ایم ایف ایستھر پیریز کے مطابق آئی ایم ایف کی ٹیم 3 ارب ڈالر کے موجودہ اسٹینڈ بائی انتظامات (ایس بی اے) کے تحت پہلے جائزے پر 2 نومبر سے پاکستان کا دورہ کرے گی۔
ایستھرپیرز کے مطابق آئی ایم ایف کی جانب سے پہلی سہ ماہی کے اعداد و شمار مرتب کرنے میں تاخیر کی توقع میں مذاکرات کے لیے 7 نومبر کی تجویز دی گئی تھی تاہم وزارت خزانہ کی جانب سے یقین دہانی کرائی گئی کہ جائزہ مذاکرات کیلئے متعلقہ اعداد و شماردستیاب ہیں۔
اسٹاف لیول مذاکرات کامیاب ہونے کی صورت میں آئی ایم ایف بورڈ دسمبر2023 میں پاکستان کو قرضے کی اگلی قسط کی منظوری دے دے گا۔
پہلی جائزہ بات چیت 710 ملین ڈالر کے قرض کی دوسری قسط کے لیے ہوگی، عملے کی سطح پر معاہدے سے دسمبر میں آئی ایم ایف بورڈ کی جانب سے منظوری کی راہ ہموار ہوگی۔ سب سے مشکل بات بیرونی فنانسنگ میں پایا جانے والا فرق ہے۔ حکومت پاکستان نے یوروبانڈز او کمرشل قرضوں کے باوجود بیرونی فنانسنگ میں شارٹ فال کا اندازہ ساڑھے چارارب ڈالرلگا رکھا ہے۔
مذاکرات میں ڈالرکے مقابلے میں روپے کا ایکسچینج ریٹ اور مانیٹری پالیسی بھی زیربحث آئیں گے۔
آئی ایم ایف نے رواں سال جولائی میں 3 ارب ڈالر کے قرض کی منظوری دیتے ہوئے آئی ایم ایف نے 1.2 ارب ڈالر کی پہلی قسط بھی جاری کی تھی۔
حکومت کے ایک سینئر عہدیدارکے مطابق ایکسچینج ریٹ مینجمنٹ اورمانیٹری پالیسی کا موقف دیگردو شعبے ہیں جن کا آئی ایم ایف باریک بینی سے جائزہ لے گا۔ایک وفاقی وزیر کے مطابق پاورڈویژن کی جانب سے سرکلرڈیبٹ میں کمی لانے کی شرط پوری کی جاچکی ہے۔
دوسری جانب ایک ماہ سے زائد عرصے تک مسلسل گراوٹ دکھانے کے بعد گزشتہ چند روز کے دوران ڈالرایک بار روپے کے مقابلے میں مضبوط ہونا شروع ہوگیا ہے۔ روپے کی قدر میں کمی آئی ایم ایف مذاکرات کے پیش خیمہ کے طور پردیکھی جا رہی ہے۔
ذخیرہ اندوزوں اور اسمگلروں کے خلاف فوج کے کریک ڈاؤن اور درآمدات کے انتظام کی وجہ سے گزشتہ ایک ماہ کے دوران انٹربینک مارکیٹ میں روپے کی قدر میں 8 فیصد اور اوپن مارکیٹ میں 14 فیصد اضافہ ہوا۔
پہلی سہ ماہی میں گردشی قرضوں میں اضافے کی اصل حد 155 ارب روپے تھی لیکن حال ہی میں اس پر نظر ثانی کرتے ہوئے اسے 292 ارب روپے کر دیا گیا ہے۔
حکومت پہلے ہی بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کرچکی ہے اور یکم نومبر سے گیس کی قیمتوں میں بھی اضافہ کردیاجائے گا۔
آئی ایم ایف سے یہ وعدہ بھی کیا گیا تھا کہ وہ ایندھن کی سبسڈی یا کراس سبسڈی نہیں دے گی تاہم گھریلو برآمدات اور صنعتی گیس صارفین کے لیے کراس سبسڈی کی منظوری دی جا چکی ہے۔
پہلی سہ ماہی کیلئے بنیادی بجٹ خسارے کا ہدف 87 ارب روپے ہے، جو ایف بی آر کی غیر معمولی اچھی کارکردگی اور سرکاری شعبے کے ترقیاتی اخراجات روکنے کی وجہ سے پورا ہوتا نظرآرہا ہے۔ حکومت 421 ارب روپے کا بنیادی سرپلس ہدف حاصل کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔