پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما اور ماہر قانون اعتزاز احسن نے خصوصی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل کالعدم قرار دینے کے فیصلے پر کہا کہ آج کے فیصلے کے دورس نتائج برآمد ہوں گے، عدالیہ نے اپنے اختیار کو آشکار کیا ہے۔
آج نیوز کے پروگرام ”فیصلہ آپ کا“ میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے اعتزاز احسن نے کہا کہ مریم نے جلسے میں سب کو کہا کہ فون آن کریں، جب فون کی لائٹیں جلیں تو بیچ میں بڑے بڑے گیپ تھے، جلسے میں 20 ہزار بھی لوگ نہ تھے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ سائفر کی صحت سے کوئی انکار نہیں ہے، نیشنل سکیورٹی کمیٹی دو مرتبہ اس کی توثیق کرچکی ہے، ایک مرتبہ عمران خان کی سربراہی میں اور ایک دفعہ شہباز شریف کی سربراہی میں اور اس کے تحت سائفر کے معاملے آپ نے امریکا سے احتجاج بھی کیا، اب اگر آپ احتجاج کرتے ہیں تو اس مطلب ہے آپ درست مانتے ہیں امریکا نے واقعتاً دھمکی دی ہے۔
اعتزاز احسن نے کہا کہ سائفر میں کوئی ایسی چیز ہی نہیں تھی جو عیاں نہ ہو، یا جس کا چیئرمین پی ٹی آئی نے استعمال کیا ہو۔
انہوں نے کہا کہ سائفر میں تو ان کو سزا ہونی چاہیے جنہوں نے کیس بنایا، میں یہ اس لیے کہہ رہا ہوں کہ آئین کے تحت پرائم منسٹر کو اکیلے کو اختیار ہے کہ وہ جس ڈاکیومنٹ کو چاہے فاش کرسکے۔
ان کا کہنا تھا کہ سابق وزیراعظم نے کوئی ایٹمی راز تو فاش نہیں کیے، انہوں نے فاش کیا ہے کہ یہ دھمکی آئی ہے امریکا سے ہماری حکومت ار ایم این ایز کو کہ آپ کل جو نو کانفیڈنس نوشن ہوگی اس میں آپ پرائم منسٹر کو ہٹائیں گے۔ باجوہ صاحب نے ان کو یقین دہانی کرادی ہوگی کہ کل ہم ان کو ہٹا دیں گے۔ جب قاسم سوری نے اپنا فیصلہ سنا دیا تو وہ کل نکلا جارہا تھا اور پھر سپریم کورٹ جاکر ہی وہ فیصلہ کالعدم قرار دیا سکتا تھا اور وہ کالعدم قرار دیا گیا اسی صورت حال میں کہ تحریک عدم اعتماد کل ہی ہو جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ سائفر کا کیس سمجھنے کیلئے وزیراعظم کے اختیارات اور اس کے حلف کو دیکھنا پڑتا ہے، آپ یونہی مقدمہ نہیں بنا سکتے، اب وہ دیکھیں تو اس کے پاس اختیار ہے وہ جب چاہے ڈی سائفر کردے۔ بھٹو نے سائرس وانس کا خط لہرایا ان پر تو کوئی سائفر کا کیس نہیں چلا۔ نواز شریف کلنٹن سے ملاقات کا کئی بار اقرار کر چکے ہیں۔
پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے رہنما خورشید شاہ نے کہا کہ ن لیگ والے بھی سمجھ رہے ہیں کہ ہم جو کچھ کر رہے ہیں غلط کر رہے ہیں، نواز شریف کی واپسی پر اتحادیوں کو اعتماد میں لینا چاہیے تھا۔ نواز شریف کی واپسی کیلئے جلسے کیے گئے، ن لیگ نے دیگر جماعتوں کو دعوت نہیں دی، کیونکہ وہ خود شرمندگی محسوس کر رہے تھے کہ کسی نے پوچھ لیا تو کیا جواب دیں گے کہ کیوں واپس آئے، مناکر لائے گئے منواکر آگئے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ کو ان کے آںے کا کوئی پچھتاوا نہیں ہے، اسٹبلشمنٹ نے تو ان کا استقبال کیا ہے۔ پچھتاوا میاں صاحب والوں کو اندر سے ہے۔ باہر سے تو وہ بڑے خوش نظر آتے ہیں لیکن سیاسی طور پر انہیں بہت بڑا نقصان پہنچا ہے، عوام نے ان کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا۔
ان کا کہنا تھا کہ میں بڑے وثوق سے کہتا ہوں کہ عوام سمجھتے ہیں عمران خان اور نواز شریف میں زیرو پرسنٹ فرق نہیں رہا۔
خورشید شاہ نے کہا کہ نوازشریف وہی پرانی غلطیاں دہرا رہے ہیں، مجھے ذاتی طور پر نواز شریف سے اس طرح کی امید نہ تھی، ایک اور ہائبرڈ رجیم کی تیاری کی جارہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ انتخابات کے التوا کا الزام اس پر آئے گا جو اس سے فائدہ اٹھائے گا۔
خورشید شاہ نے کہا کہ الیکشن کو ڈی ریل کرانے کا ایک ہی راستہ ہے مارشل لاء لگا دیا جائے.
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ انتخابات میں پیپلز پارٹی پر اگر لوگوں نے اعتماد نہیں کیا، مطلوبہ سیٹیں نہ لے سکے تو ہم اپوزیشن میں بیٹھنا پسند کریں گے، اپوزیشن کا ایک بہت اچھا کردار ادا کریں گے۔
تو کیا آپ ن لیگ کے حکومت نہیں بنائیں گے؟ اس سوال کے جواب میں انہوں نے جواب دیا ’بالکل‘۔ ہمارے اور ن لیگ کیلئے یہی مناسب ہے کہ پیپلز پارٹی ان کی اپوزیشن جماعت ہو، جو ان کو سکھائے بھی دھکا بھی دے اور آگے چلائے بھی۔