پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف تین بار 1990ء سے 1993ء، 1997ء سے 1999ء اور آخری بار 2013ء تا 2017ء وزیر اعظم پاکستان کے عہدے پر فائز رہے۔ قائد ن لیگ کو مختلف مواقعوں پر وزارت عظمیٰ سے ہٹنا پڑا اور جلاوطنی کی زندگی گزارنی پڑی۔
سابق وزیر اعظم نواز شریف بالآخر وطن واپس پہنچ گئے۔ تین بار ملک کے وزیر اعظم رہنے والے قائد ن لیگ نے سیاسی کیریئر میں کافی نشیب و فراز دیکھے۔
مختلف وجوہات کی بنا پر نواز شریف سیاسی اننگ سے آوٹ ہوئے ، انھوں نے جلاوطنی کی زندگی بھی گزاری اور اب ایک بار پھر وہ نئی سیاسی اننگ کیلئے پُرامید ہیں۔
نواز شریف دسمبر 1949 کو لاہور میں کاروباری شخصیت اور صنعتکار محمد شریف کے گھر پیدا ہوئے۔ ان کے والد نے اتفاق اور شریف گروپ کی بنیاد رکھی۔
ایک وقت آیا جب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں شریف خاندان کے اسٹیل کے کاروبار سمیت کئی صنعتوں کو نیشنلائز کیا گیا، اسی دور میں نواز شریف نے اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز کیا۔
نواز شریف نے 1976 میں پنجاب میں خاصی مقبول سیاسی جماعت ”پاکستان مسلم لیگ“ میں شمولیت اختیار کی۔
جنرل ضیاء الحق کی 1988 میں طیارہ حادثہ میں وفاق کے بعد پاکستان مسلم لیگ دو حصوں میں تقسیم ہوئی اور پاکستان مسلم لیگ کو نواز شریف نے سنبھالا اور یہی جماعت موجودہ پاکستان مسلم لیگ (ن) ہے۔
نواز شریف نے 1990 کے دوران بحیثیت سربراہ ”اسلامی جمہوری اتحاد“ (آئی جے آئی) کے جنرل الیکشن کی کمپین چلائی۔
اسلامی جمہوری اتحاد کے سربراہ کی حیثیت سے نواز شریف 1991 میں پہلی بار وزیراعظم بنے اور تھوڑے ہی عرصے میں صدر غلام اسحٰق خان اور نواز شریف کے درمیان کشیدگی پیدا ہوگئی۔
نواز شریف سے اختلافات کے بعد صدر غلام اسحٰق خان نے اپریل 1993 میں قومی اسمبلی کو تحلیل کیا تو نواز شریف کی وزیراعظم کی پہلی مدت ختم ہوگئی، لیکن اگلے ہی مہینے مئی میں سپریم کورٹ نے قومی اسمبلی کو تحلیل کرنے کا صدارتی حکم غیر آئینی قرار دیا تو نواز شریف اقتدار میں واپس آگئے۔
نواز شریف نے 1993 میں جنرل الیکشن کروائے جس میں انھیں بےنظیر بھٹو کی قیادت میں پیپلزپارٹی کے ہاتھوں ہارنے کے بعد اپوزیشن میں بیٹھنا پڑا تھا۔
اس کے بعد پاکستان مسلم لیگ (ن) کی الیکشن میں کامیابی کے نتیجے میں قائد ن لیگ نواز شریف دوسری بار 1997 میں وزیر اعظم کی کرسی پر براجمان ہوئے۔
لیکن ایک بار پھر نواز شریف مدت پوری نہیں کرسکے اور 1999 میں اس وقت کے آرمی چیف جنرل پرویز مشرف سے ان کے کچھ اختلافات پیدا ہوئے۔ کشیدگی بڑھی تو نواز شریف نے چیئرمین آف دا جوائنٹ چیفس اور چیف آف آرمی اسٹاف کو عہدے سے ہٹانے کی کوشش کی، اور وزیراعظم نواز شریف کے احکامات پر مبینہ طور پر ایئرپورٹ بند کرکے جنرل پرویز مشرف کے طیارے کو کراچی ایئر پورٹ پر اترنے نہیں دیا گیا۔
تاہم طیارے کے نواب شاہ ایئرپورٹ پر اترنے کے بعد جنرل پرویز مشرف نے اعلیٰ جرنیلز کو ملک سنبھالنے کا حکم دیتے ہوئے نواز شریف کو برطرف کیا۔ اور پھر ہائی جیکنگ سمیت مختلف الزمات میں نواز شریف کا ملٹری کورٹ میں ٹرائل ہوا جس میں ان کو عمر قید کی سزا سنائی گئی۔
اس موقع پر سعودی عرب نے سیاسی معاملات میں ثالثی کا کردار ادا کیا اور ایک مبینہ معاہدے کے بعد معزول وزیراعظم نواز شریف 10 سال کے لیے ملک سے جلاوطن ہوگئے۔
سپریم کورٹ آف پاکستان نے اگست 2007 میں حکم دیا کہ شریف برادران پاکستان آنے کے لیے آزاد ہیں۔ جس کے اگلے ہی مہینے نواز شریف جلاوطنی ختم کرکے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد آئے لیکن انہیں طیارے سے اترنے کے بجائے جدہ ڈی پورٹ کیا گیا، اور پھر وہ نومبر میں سیاسی اننگ کھیلنے کیلئے وطن واپس آئے۔
نواز شریف کو تیسری مرتبہ مئی 2013 میں وزیر اعظم منتخب کیا گیا، لیکن پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے الیکشن میں دھاندلی اور دھوکا دہی کے الزامات لگائے گئے۔ اور 2014 کے آخر میں نواز حکومت کو شدید احتجاج کا سامنا بھی کرنا پڑا۔
اس کے بعد پاناما لیکس نے پاکستان کی سیاست میں بھونچال برپا کردیا۔ 4 اپریل 2016 کو پاناما پیپرز میں وزیر اعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز کو دو آف شور کمپنیوں کا بینیفیشل مالک قرار دیا گیا۔
عدالت عظمیٰ نے اکتوبر 2016 میں پاناما پیپرز کیس کی سماعت شروع کی۔ اور ایک مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دینے کا حکم دیا، جس نے نواز شریف کو کیپیٹل ایف زیڈ ای نامی ایک دبئی میں قائم کمپنی کا چیئرمین پایا اور انہیں نااہل قرار دے دیا۔
2017 کو سپریم کورٹ نے تین دو کا فیصلہ جاری کیا جس میں جسٹس آصف سعید کھوسہ اور جسٹس گلزار احمد نے وزیرِ اعظم نواز شریف کو نا اہل قرار دیا۔
عدالتی حکم پر میاں صاحب نا اہل ہوئے تو شاہد خاقان عباسی وزیرِ اعظم منتخب ہوئے اور پنجاب میں شہباز شریف کی حکومت برقرار رہی۔
پھر 2018 میں اس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار کی سرپراہی میں جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل بینچ نے نواز شریف کو پاکستان مسلم لیگ (ن) کی سربراہی کے لیے بھی نااہل قرار دیا۔
اس کے بعد چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس شیخ عظمت سعید، جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس سجاد علی شاہ پر مشتمل بینچ نے 2018 کو سمیع اللہ بلوچ بنام عبد الکریم نوشیروانی کیس میں اتفاقِ رائے سے آئین کے آرٹیکل 62 ایک ایف کے تحت ہونے والی نااہلی کو تاحیات قرار دے دیا۔
نواز شریف کی مشکلات یہیں ختم نہیں ہوئیں پھر احتساب عدالت نے 6 جولائی 2018 کو نواز شریف کی غیر موجودگی میں انھیں ایون فیلڈ ریفرنس میں دس برس قید کی سزا سنائی۔ اس کیس میں مریم نواز کو سات برس اور کیپٹن صفدر کو ایک سال قید کی سزا بھی سنائی گئی تھی۔
13 جولائی 2018 میں بیرون ملک سے واپسی پر نواز شریف اور مریم نواز کو لاہور ایئرپورٹ سے حراست میں لیا گیا۔
پھر احتساب عدالت نے 24 دسمبر کو نواز شریف کو فلیگ شپ ریفرینس میں بری کیا تاہم العزیزیہ اسٹیل مل ریفرنس میں انہیں سات سال قید کی سزا سنائی گئی۔
29 اکتوبر 2019 کو العزیزیہ کیس میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے قید کے دوران طبی بنیادوں پر نواز شریف کی سزا آٹھ ہفتوں کے لیے معطل کی۔
نواز شریف 19 نومبر 2019 کو اس وقت بیرونِ ملک روانہ ہوئے جب اس سے پہلے 16 نومبر کو لاہور ہائی کورٹ نے چار ہفتوں کے لیے نواز شریف کو طبی معائنے کے لیے برطانیہ جانے کی اجازت دی اور حکومت کو ان کا نام ای سی ایل سے خارج کرنے کا حکم دیا گیا۔
نواز شریف چار ہفتوں کی اجازت پر بیرون ملک گئے لیکن چار سال لندن میں قیام کے بعد 21 اکتوبر کو پاکستان واپس آئے اور مینار پاکستان پر جلسے سے خطاب کیا۔