معروف گلوکارہ مومنہ مستحسن نے اسرائیل فلسطین کشیدگی پر بیان دیا تو سوشل میڈیا غصے سے بھڑک اُٹھے اور گلوکارہ کو شدید تنقید کا نشانہ بنا ڈالا۔
گلوکارہ مومنہ مستحسن نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر کہا کہ میں اپنے یہودی دوستوں کی جانوں کے ضیاع پر غمزدہ ہوں، میں فلسطین کے مسلمانوں اور عیسائیوں کے غم میں برابر کی شریک ہوں، جن کی روزانہ کی بنیاد بےشمار زندگیاں لی جارہی ہیں۔
گلوکارہ نے سوال کیا کہ آخر مزید کتنی جانوں کا ضیاع ہوگا؟ ظالم اور مظلوم طبقے کو اجتماعی سزا دینا انسانیت کے خلاف ہے۔
بیان کے بعد سوشل میڈیا صارفین غصے سے آگ بگولا ہوگئے اور انہوں نے مومنہ مستحسن پر شدید تنقید کرتے ہوئے اُنہیں امریکی ماڈل بیلا حدید کی مثال دے دی جنہوں نے ہمیشہ کسی خوف کے بغیر فلسطین کی حمایت کی ہے۔
سوشل میڈیا صارفین کی تنقید پر ردعمل دیتے ہوئے مومنہ مستحسن نے کہا کہ میں بہت حیران ہوں کیونکہ میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ انسان جانوں کے ضیاع کی مذمت کرنے پر مجھے پاکستانیوں کی جانب سے تنقید کا سامنا کرنا پڑے گا۔
مومنہ مستحسن نے کہا کہ میرا ماننا یہ ہے کہ اسرائیل کی ریاست تمام یہودیوں کی نمائندگی نہیں کرتی، بالکل اُسی طرح، جس طرح بھارتی حکومت تمام ہندوؤں کی نمائندگی نہیں کرتی ہے اور پاکستانی حکومت تمام مسلمانوں کی نمائندگی نہیں کرتی ہے۔
گلوکارہ نے کہا کہ میرا ماننا یہ ہے کہ ہمارے لیے سب سے زیادہ اہم انسانی جان اور انسانیت کا تحفظ ہونا چاہیے، میں اسرائیل کی حکومتی پالیسیوں کی مخالفت کرتی ہوں۔
اُنہوں نے کہا کہ فلسطینی عوام کئی دہائیوں سے مظلوم اور قبضے کی زندگی گزار رہے ہیں، ہمیں اس نسل کشی کو روکنا کی ضرورت ہے۔
گلوکارہ نے مزید کہا کہ ظالم تو قصوروار ہے لیکن ہمیں وہاں کر عام شہریوں کی ہلاکتوں پر بھی افسوس کرنا چاہیے۔