Aaj Logo

اپ ڈیٹ 21 اکتوبر 2023 10:30am

سعودی عرب میں اہم ملاقات، میاں صاحب وطن واپسی پر کیا تقریر کرنے والے ہیں؟

مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں محمد نواز شریف جدہ سے دبئی پہنچ گئے ہیں لیکن ان کا شیڈول تاخیر کا شکار رہا ہے، اس حوالے سے کہا جارہا ہے کہ ان کی سعودی عرب سے رخصتی کچھ اہم ملاقاتوں کے باعث تاخیر کا شکار ہوئی۔

اس حوالے سے آج نیوز کے پروگرام ”فیصلہ آپ کا“ میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ن لیگ کے رہنما اور سینیٹر عرفان صدیقی نے بتایا کہ ’تاخیر کی وجہ اُن (نواز شریف) کی ایک آدھ میٹنگ تھی، جو ہوچکی ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ ’میٹنگ اہم ہو یا غیر اہم ہو، میٹنگ اگر ہونی ہے تو فلائٹ ڈیلے ہوگی، میں اس کی تفصیلات جانتا بھی نہیں ہوں بتا بھی نہیں سکتا، کوئی اہم میٹنگ تھی یقیناً جس کی وجہ سے انہیں تھوڑی تاخیر کرنا پڑی، لیکن اتنی زیادہ تاخیر نہیں ہے‘۔

چونکہ عرفان صدیقی نواز شریف کی تقاریر بھی لکھتے رہے ہیں تو ان سے پوچھا گیا کہ نواز شریف وطن واپسی پر کیا تقریر کریں گے، کیا اس میں کوئی غیر متوقع بات ہوگی؟ اس سوال کے جواب میں عرفان صدیقی نے کہا کہ ’کوئی غیر متوقع باتیں نہیں ہیں، میاں صاحب کا وژن بڑا واضح رہا ہے، وہ تین دفعہ وزیراعظم رہے ہیں، ان کے ادوار کا جائزہ لیا جائے اور ان کی نفسیاتی فلاسفی کو مد نظر رکھا جائے تو ان کا جو بنیادی ہدف ہوتا ہے وہ ملک کی تعمیر اور ترقی ہے، ملک کے عوام ہیں، ملک کو آگے لے جانا ہے، جمہوریت کا استحکام ہے، یہ ان کے نظریات بڑے واضح ہیں، یہ ان کی تقریر میں بھی آپ کو ملیں گے اور یہی ان کا بنیادی بیانیہ ہوگا‘۔

انہوں نے کہا کہ 2017 میں پاکستان جس ٹیک آف پر آگیا تھا س کے بعد جو زوال ہوا اس کے ملک کو نکالنے کیلئے ان کے پاس یقیناً کوئی فارمولہ اور سوچ ہوگی، اور وہ اسی پر فوکس کریں گے۔

تو کیا وہ اپنی تقریر میں جنرل باجوہ اور فیض کے احتساب کی بات نہیں کریں گے؟ اس سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ’میاں صاحب کا ایک نظریہ رہا ہے اور میاں صاحب اس نظریے سے کبھی پیچھے بھی نہیں ہٹے، اور وہ نظریہ یہی ہے کہ جن لوگوں نے جمہوریت کو نقصان پہنچایا، خاص طور پر پچھلے پانچ چھ سالوں میں ایک شخص کو منصوبہ بندی کرکے سازش کرکے۔۔۔ میاں صاحب اور ان کے خاندان پر جو بیتی سو بیتی، پاکستان اور اس کے عوام پر جو بیت رہی ہے اس کو وہ یقیناً اپنا جو سیاسی نظریہ ہے اس میں بڑا عزیز رکھتے ہیں‘۔

ان کا کہنا تھا کہ اس وقت ان کی ترجیح ان مسائل کو حل کرنا ہے، باقی وہ اپنے نظریے پر قائم ہیں، ’وہ نظریہ کس وقت بروئے کار آسکتا ہے یا اس کا محل موقع کیا ہوسکتا ہے یہ پوری اجتماعی سیاسی قیادت کو سوچنا ہوگا‘۔

Read Comments