اسرائیلی اخبار نے دعویٰ کیا ہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ خفیہ طور پر اسرائیل پر زور دے رہی ہے کہ وہ لبنان کی ایرانی حمایت یافتہ ملیشیا حزب اللہ کے خلاف فوجی مہم شروع نہ کرے، تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ فلسطینی گروپ حماس کے ساتھ اسرائیل کا تنازعہ غزہ سے باہر نہ پھیلے۔
اس معاملے سے واقف دو اسرائیلی عہدیداروں نے ”ٹائمز آف اسرائیل“ کو بتایا کہ، ’امریکہ تسلیم کرتا ہے اسرائیل کو حزب اللہ کی طرف سے اپنی شمالی سرحد کو نشانہ بنائے جاننے کا جواب دینا چاہیے۔‘
’لیکن لبنانی گروپ کے بار بار حملوں اور یہ حقیقت کہ اسرائیل غزہ سے حماس کے حملے کا اندازہ لگانے میں ناکام رہا ہے، اس بات پر بحث میں شدت پیدا کرتی ہے کہ آیا اسرائیل کو حزب اللہ کے خلاف جنگ شروع کرنی چاہیے تاکہ بالادستی برقرار رہے؟‘
اسرائیلی حکام نے کہا کہ ’امریکہ نے اسرائیل کو خبردار کیا ہے کہ وہ حزب اللہ کی کارروائیوں کے خلاف اپنے فوجی ردعمل میں محتاط رہے، اور یہ وضاحت پیش کی کہ لبنان میں آئی ڈی ایف کی غلطی سے بہت بڑی جنگ چھڑ سکتی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’بائیڈن انتظامیہ کے حکام نے حالیہ دنوں میں اسرائیل کو اشارہ دیا ہے کہ اگر حزب اللہ اسرائیل کے خلاف جنگ شروع کرتی ہے، تو امریکی فوج دہشت گرد گروہ کے خلاف جنگ میں IDF کے ساتھ شامل ہو جائے گی۔‘
تل ابیب نے کہا ہے کہ حزب اللہ نے 7 اکتوبر کو حماس کے حملے کے بعد اسرائیلی فوجی ٹھکانوں اور اسرائیلی قصبوں پر درجنوں اینٹی ٹینک گائیڈڈ میزائل، راکٹ اور مارٹر فائر کیے ہیں، جب کہ بندوق برداروں کو اسرائیل میں دراندازی کے لیے بھیجا ہے۔
پیر کو اسرائیلی ڈیفنس فورسز (IDF) نے حزب اللہ کو خبردار کیا تھا کہ اگر اس نے اسرائیل کے خلاف حملے جاری رکھے تو اسے ”مہلک“ جواب دیا جائے گا۔
وائٹ ہاؤس نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ اسے تشویش ہے کہ حزب اللہ اسرائیل-حماس جنگ میں حصہ لے سکتی ہے، کیونکہ ملیشیا نے لبنان-اسرائیلی سرحد پر اسرائیلی اہداف کے خلاف اپنی کارروائیاں جاری رکھی ہوئی ہیں۔
وائٹ ہاؤس کے قومی سلامتی کے ترجمان جان کربی نے کہا، ’وہ ایک طاقتور دہشت گرد گروپ ہے، اس بارے میں کوئی شک نہیں۔ ہم انہیں قریب سے دیکھتے ہیں۔ اسرائیلی ان پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ ہم اس تنازعے کو وسیع ہوتا نہیں دیکھنا چاہتے۔ ہم حزب اللہ کو اس قسم کا فیصلہ کرتے ہوئے نہیں دیکھنا چاہتے۔‘
کربی نے مزید کہا کہ ’میں ایک بار پھر یاد دلاؤں گا کہ ہم خطے میں اپنے قومی سلامتی کے مفادات کو بہت سنجیدگی سے لیتے ہیں۔ اور ہم نے ایک کیریئر اسٹرائیک گروپ کو ایسٹرن میڈ میں منتقل کرنے کی وجہ حزب اللہ سمیت کسی بھی دوسرے اداکار جو یہ سوچ سکتا ہے کہ اس تنازعہ کو وسیع کرنا ایک اچھا خیال ہے، اس کے لیے رکاوٹ کا کام کرنے کیلئے بھیجا ہے‘۔