اسلام آباد ہائی کورٹ نے کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیئے کہ جو لوگ وائٹل رول ادا کر رہے ہیں وہ پچھلی حکومت میں بھی تھے، اب اِس نگران حکومت میں اُن کی لائن پر ہیں۔
اسلام آباد ہائیکورٹ میں سی ڈی اے میں تعینات ڈیپوٹیشن افسران کے تبادلے سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی۔
ڈی جی الیکشن کمیشن عدالتی حکم پر پیش نہ ہوئے، جس پر جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے الیکشن کمیشن حکام پر برہم کا اظہار کیا۔
الیکشن کمیشن کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ڈی جی صاحب کی بیٹی کی شادی کے اس لیے نہیں آئے۔
عدالت نے استفسار کیا کہ آپ تبادلے کے نوٹیفکیشن کی زبان دیکھیں ایسے ٹرانسفر کیا جاتا ہے، آپ اپنا اسٹیٹس خراب کر رہے ہیں تبھی ڈی جی کو بلایا تاکہ نوٹیفکیشن ان کی نظر سے گزر سکے۔
جسٹس میاں گل نے ریمارکس میں کہا کہ کہا گیا اس غلط آدمی کو ہٹا کر اچھے آدمی کو لگایا جائے، اس نوٹیفکیشن میں ترمیم کریں نوٹ کریں اور بتائیں چیف الیکشن کمشنر اور ممبران کو۔
درخواست گزار وکیل وسیم حیات باجوہ کے وکیل نے مؤقف پیش کیا کہ پوسٹنگ پر اتنا وقت ضائع کرتے ہیں تو الیکشن کیسے کروائیں گے، ہم گھر گئے تو سی ڈی اے والے باہر کھڑے تھے کہ گھر خالی کریں۔
عدالت نے الیکشن کمیشن سے استفسار کیا کہ اس نوٹیفکیشن میں کب کرینگے ترمیم بتائیں۔ جس پر وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ سی ڈے اے کا بھی لیٹر آیا ہوا تھا ہم نے اس پر ٹرانسفر کی، وسیم حیات باجوہ کے خلاف کوئی انکوائری التواء میں نہیں تھی۔
جسٹس میاں گل حسن نے ریمارکس دیئے کہ سی ڈی اے ایک خودمختار ادارہ ہے۔
درخواست گزار کے وکیل نے مؤقف پیش کیا کہ اگر یہ قانون جو یہ بتا رہے ہیں اس پر تو چیئرمین سی ڈی اے کو بھی تبدیل ہونا چاہیے، صرف پروپوزل کا لیٹر لکھا ہوا تھا، اور انہوں نے اٹھا کر ٹرانسفر کردیں۔
دوران سماعت جسٹس میاں گل نے نگران حکومت میں شامل وزراء اور بیوروکریٹس پر سوال اٹھا دیا، اور ریمارکس دیئے کہ جو لوگ وائٹل رول ادا کر رہے ہیں وہ پچھلی حکومت میں بھی تھے، اب اِس نگران حکومت میں اُن کی لائن پر ہیں۔
جسٹس میاں گل نے الیکشن کمیشن حکام سے استفسار کیا کہ کیوں پِک اینڈ چوز کیا جارہا ہے۔
عدالت نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن کمیشن کو موقع دیا جا رہا ہے کہ اس نوٹیفکیشن میں ترمیم کی جائے، الیکشن کمیشن تعصب پر مبنی فیصلوں پر نظر ثانی کرے، اور چیف الیکشن کمشنر کو آگاہ کریں کہ جو نوٹیفکیشن جاری ہو رہے ہیں ان کو دیکھیں۔
دوران سماعت عدالت نے خواجہ آصف کیس کا حوالہ بھی دیا۔ اور کہا کہ ایک ہفتے کے بعد فریقین سے دلائل طلب کررہے ہیں، سب کو سنا جائے گا۔
جسٹس میاں گل حسن نے بارالیکشنز کا بھی تذکرہ کیا اور الیکشن کمیشن حکام کو مخاطب کرتے ہوئے مکالمہ کیا کہ جو لوگ کہتے تھے انشاء اللہ ووٹ دیں گے وہی ووٹ نہیں دیتے تھے۔
عدالت نے درخواست گزار ممبر سی ڈی اے وسیم حیات باجوہ کو دی گئی سہولیات واپس نہ لینے کا حکم دیتے ہوئے درخواست گزار کو گھر خالی کرنے سے روک دیا۔ اور ریمارکس دیئے کہ بادی النظر میں درخواست گزار کو سی ڈی اے نے انتقام کا نشانہ بنایا۔
الیکشن کمیشن نے غلطی تسلیم کرتے ہوئے عدالت کو ترمیم کی یقین دہانی کرائی۔ جس پر عدالت نے الیکشن کمیشن کو ایک ہفتے میں ترمیم کی ہدایت کرتے ہوئے کیس کی سماعت اگلے ہفتے تک ملتوی کردی۔