امریکی خلائی ایجنسی ”ناسا“ کا ”سائیکی“ خلائی جہاز ایک نایاب دھات سے ڈھکے سیارچے کی طرف جمعہ کو چھ سال کے سفر پر روانہ ہوا ہے۔
زیادہ تر سیارچے (ایسٹیروئیڈ) پتھریلے یا برفیلے ہوتے ہیں، یہ سیارچہ پہلا ہے جو دھات پر مبنی ہے۔
سائنس دانوں کا خیال ہے کہ یہ سیارچہ کسی ابتدائی سیارے کے مرکز کی باقیات ہو سکتا ہے اور زمین اور دیگر چٹانی سیاروں کے ناقابل رسائی مراکز پر روشنی ڈال سکتا ہے۔
اسپیس ایکس نے خلائی جہاز کو ناسا کے کینیڈی اسپیس سینٹر سے جمعے کی صبح آسمان پر روانہ کیا۔
جس سیارچے کے تعاقب میں یہ خلائی جہاز گیا ہے اس کا نام بھی ”سائیکی“ ہی رکھا گیا ہے، یعنی ”سائیکی“ کو 2029 میں آلو کی شکل والے بڑے ”سائیکی“ سیارچے تک پہنچنا چاہیے۔
کئی دہائیوں تک چٹان، برف اور گیس کی دور دراز دنیاؤں کو کھنگالنے کے بعد ناسا دھات میں لپٹی ہوئے اس سیارچے کا تعاقب کر رہا ہے۔
اب تک دریافت ہونے والے نو یا اس سے زیادہ دھات سے بھرپور سیارچوں میں سائیکی سب سے بڑا ہے، جو لاکھوں دیگر خلائی چٹانوں کے ساتھ مریخ اور مشتری کے درمیان مرکزی ایسٹیرائیڈ بیلٹ کے بیرونی حصے میں سورج کے گرد چکر لگاتا ہے۔
اسے 1852 میں دریافت کیا گیا تھا اور اس کا نام یونانی افسانوں کی روح کی دلکش دیوی کے نام پر رکھا گیا تھا۔
ایریزونا اسٹیٹ یونیورسٹی کے لیڈ سائنسدان لنڈی ایلکنز ٹینٹن کہتی ہیں کہ ’یہ طویل عرصے سے انسانوں کا خواب رہا ہے کہ وہ ہماری زمین کے دھاتی کور تک جائیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’دباؤ بہت زیادہ ہے۔ درجہ حرارت بہت زیادہ ہے۔ ٹیکنالوجی ناممکن ہے، لیکن ہمارے نظام شمسی میں ایک طریقہ موجود ہے کہ ہم دھاتی کور کو دیکھ سکیں اور وہ ہے اس سیارچے پر جانا۔‘
ماہرین فلکیات ریڈار اور دیگر مشاہدات سے جانتے ہیں کہ سیارچہ بڑا ہے ، یہ تقریباً 144 میل (232 کلومیٹر) چوڑا اور 173 میل (280 کلومیٹر) لمبا ہے۔
ان کا خیال ہے کہ یہ لوہے، نکل اور دیگر دھاتوں سمیت ممکنہ طور پر سلیکیٹس سے بھرا ہوا ہے۔
ایلکنز ٹینٹن کے مطابق، یہ بھی ممکن ہے کہ سونا، چاندی، پلاٹینم یا اریڈیم سیارچے کے لوہے اور نکل میں تحلیل پائے جا سکتا ہے۔
ایلکنز ٹینٹن نے کہا کہ یہ سیارچہ بنیادی سوالات کے جوابات دینے میں مدد کر سکتا ہے جیسے کہ زمین پر زندگی کیسے پیدا ہوئی اور ہمارے سیارے کو کس چیز نے رہنے کے قابل بنایا۔
زمین پر، سیارے کا آئرن کور مقناطیسی میدان کے لیے ذمہ دار ہے جو ہمارے ماحول کو ڈھال دیتا ہے اور زندگی کو قابل بناتا ہے۔