سائفر کیس میں جیل ٹرائل خلاف چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست پر اسلام آباد ہائی کورٹ کل فیصلہ سنائے گی۔
سائفر کیس میں جیل ٹرائل خلاف چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست پر فیصلہ کل سنایا جائے گا، اسلام آباد ہائیکورٹ کے رجسٹرار آفس نے کاز لسٹ جاری کردی ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق محفوظ فیصلہ سنائیں گے۔
چیئرمین پی ٹی آئی نے جیل کی بجائے عدالت میں سماعت کی استدعا کر رکھی ہے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ منے چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی جانب سے توشہ خانہ فوجداری کارروائی کا فیصلہ معطل قرار دینے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کررکھا ہے۔
9 اکتوبر کو درخواست کی سماعت چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ عامر فاروق اور جسٹس بابرستار پر مشتمل ڈویژن بینچ نے کی۔ درخواست میں ٹرائل کورٹ کا فیصلہ مکمل طور پرکا لعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی تھی، عدالت نے وکیل لطیف کھوسہ کے دلائل سن کرفیصلہ محفوظ کرلیا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اس درخواست پر عدالتی حوالے دیکھنے کے بعد مناسب حکم نامہ جاری کریں گے۔
عمران خان کی جانب سے دائر درخواست میں مرکزی اپیل میں ریاست کوفریق بنانےکی اجازت دینےکی استدعا کی گئی تھی۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نےاستفسارکیا کہ درخواست پرتو اعتراضات لگے ہیں۔ جواب میں لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ جی بالکل،اعتراض لگاہواہے،ہم چاہتے ہیں ریاست کو فریق بنائے جائے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا کہ آپ کےپاس کوئی عدالتی حوالہ موجود ہے تو پیش کریں۔
عمران خان کو عہدے سے ہٹانے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ
عمران خان کے وکیل کی جانب سے اپنے دلائل کی سپورٹ میں عدالتی فیصلوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ ہم سزامعطلی کےفیصلےپرنظرثانی کا نہیں کہہ رہے،یہ کوئی اپیل نہیں۔
جسٹس عامر فاروق نے کہا ک آپ جن فیصلوں کا حوالہ دے رہے ہیں وہ کاپی دے دیں۔
دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے عدالت نے ریمارکس دیے کہ عدالتی حوالےدیکھنے کے بعد مناسب حکم نامہ جاری کریں گے۔
12 اکتوبر کو عمران خان کی جانب سے ان کے وکیل لطیف کھوسہ کی درخواست پر اسلام آباد ہائی کورٹ میں سماعت ہوئی تھی۔
الیکشن کمیشن کی عمران خان کو پارٹی عہدے سے ہٹانے کی خبروں کی تردید
چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل لطیف کھوسہ نے عدالت کے سامنے مؤقف پیش کیا کہ کارروائی روکنے اور فرد جرم عائد کرنے کے فیصلے کے خلاف درخواست ہے، معاملہ ہائیکورٹ میں چل رہا ہے اورفیصلہ محفوظ ہے، لاہور ہائیکورٹ نے بھی ایک کیس میں حکم امتناعی جاری کیا ہوا ہے۔
لطیف کھوسہ نے کہا کہ ہم نے بار بار کہا کہ جلدی نہ کی جائے معاملہ ہائیکورٹ میں چل رہا ہے، ہمیں آفیشل سیکرٹ ایکٹ سے متعلق کافی خدشات ہیں، کون سی سیکیورٹی کا خطرہ ہے؟ یا سیکریسی لیک ہورہی ہے، ذوالفقار علی بھٹو نے بھی راجہ بازارمیں تقریر میں ایسے ہی بتایا تھا تو کیا ہوا۔
وکیل لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ میرے مؤکل قومی ہیرو ہیں اور دنیا جانتی مانتی ہے اب وہ بے گناہ جیل میں ہیں۔
جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ آج صرف متفرق درخواست لگی ہے اگر آپ کہیں تو میں مرکزی کیس کے ساتھ لگا لوں۔
وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ بالکل آپ اس کو سائفر کیس کی اخراج کی درخواست کے ساتھ لگا دیں، لیکن 17 تاریخ سے پہلے لگائیں۔
عدالت نے وکیل سے استفسار کیا کہ اُس روز یعنی 17 اکتوبر کوکیا ہونا ہے۔ جس پر وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ 17 کو بڑی بدمزگی ہونی ہے، عمران خان کا ٹرائل چل رہا ہے، ان پر فرد جرم عائد ہونی ہے۔
چیف جسٹس عامرفاروق نے کہا کہ میں دیکھ لیتا ہوں اور آرڈر بھی کردوں گا، 17 اکتوبر سے پہلے کیس لگا دوں گا۔
عدالت نے درخواست سائفر کیس اخراج مقدمہ کی درخواست کے ساتھ یکجا کردی، اور چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ درخواستوں کو ساتھ لگانے کے احکامات جاری کردوں گا۔
دوسری جانب خصوصی عدالت نے اپنے تحریری فیصلے میں واضح کیا ہے کہ سائفر کیس میں سختی سے قانون کے مطابق ملزمان پر فرد جرم عائد کی کاروائی کا آغاز کیا جائے گا۔
12اکتوبر کو اسلام آباد کی خصوصی عدالت نے سائفر کیس میں ملزمان پر فرد جرم عائد کرنے کا 9 اکتوبر کا فیصلہ جاری کیا، اڈیالہ جیل کی سماعت کا تحریری فیصلہ جج ابوالحسنات نے جاری کیا۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ 9 اکتوبر کو چالان کے نقول فراہم کرنے کیلئےسماعت مقرر کی تھی، چیئرمین پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کو کمرہ عدالت میں لانے کی ہدایت کی گئی۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پی ٹی آئی کے وکلا سماعت روکنے کیلئے کوئی عدالتی حکم سامنے نہیں لاسکے، اور انہوں نے معمول کے مطابق دلائل دینے کی استدعا کی، تاہم پی ٹی آئی وکلاء کے مطابق ٹرائل ان کیمرہ نہیں ہونا چاہیے، ان کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ میں درخواستِ ضمانت زیرالتوا ہے۔
عدالت نے اپنے تحریری فیصلے میں کہا ہے کہ شاہ محمود قریشی کے وکلاء نے اوپن کورٹ میں سماعت سننے کی نئی درخواست دائر کی ہے۔
تحریری فیصلے کے مطابق عدالت نے ملزمان کو چالان کے نقول فراہم کیے، دستخط کرنے بھی کی ہدایت کی، لیکن وکیل صفائی شیرافضل مروت نے بتایا کہ ملزمان چالان کے نقول پر دستخط نہیں کریں گے، اور چیئرمین پی ٹی آئی نے بھی چالان کے نقول پر دستخط کرنے سے انکار کیا۔
عدالت نے اپنے تحریری فیصلے میں کہا ہے کہ چالان کے نقول قانون کے مطابق فراہم کردیے گئے، اور ملزمان کو آئندہ سماعت پر دستخط کرنے کا حکم دیا جاتا ہے، ملزمان نے اگر نقول پر دستخط نہ بھی کیے تو دستخط غیر مؤثرسمجھے جائیں گے کیونکہ چالان وصول ہوچکا ہے۔
عدالت نے تحریری فیصلے میں کہا ہے کہ آئندہ سماعت پر سختی سے قانون کے مطابق فردجرم عائد کی کاروائی کا آغاز کیا جائے گا۔
فیصلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ وکلاء نے چیئرمین پی ٹی آئی، شاہ محمود قریشی کے سیل کا مسلہ اُٹھایا، جس پر جج نے مسائل کو حل کرنے کیلئے اڈیالہ جیل میں سیل کا دورہ کیا، اور عدالت نے چیئرمین پی ٹی آئی کے سیل کے سامنے قائم دیوار کو توڑنے کا حکم دیا۔
عدالت نے فیصلے میں کہا ہے کہ 17 اکتوبر کو چیئرمین پی ٹی آئی اورشاہ محمود قریشی پر فرد جرم عائد کیا جائے گا۔