”گھر میں اور بھی افراد ہیں لیکن مجھے اس لہے تشدد کا نشانہ بنایا گیا کیونکہ میں قانون اور تحصیل کچہری جانتی ہوں“، یہ الفاظ پشاور کی 24 سالہ خاتون وکیل لائبہ گل (فرضی نام) کے ہیں۔
لائبہ گل ہمشیہ کی طرح رواں سال 19 اگست کو بھی صبح عدالت جانے کے لیے تیار ہوکر نکلیں تو راستہ میں امجد (فرضی نام) نامی شخص نے تشدد کا نشانہ بنایا۔
لائبہ گل نے آج نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ کچھ عرصے سے انکے والد کا امجد کے ساتھ کچھ لین دین کا تنازع چلتا آرہا ہے جس کے قانونی معاملات وہ دیکھتی ہیں اور اسی وجہ سے انہیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا مخالفین نے یہ سمجھ کر ان پر حملہ کیا کہ اگر لائبہ راستے سے ہٹ جائے تو معاملات ان کے حق میں ہوسکتے ہیں۔
لائبہ گل کو جب تشدد کا نشانہ بنایا گیا تو پولیس نے مقدمہ درج کرنے سے انکار کردیا تاہم کریمنل پروسیجر کوڈ کی دفعہ 22 اے کے تحت مقدمے کے اندراج کے لیے رجوع پر عدالت نے پولیس کو ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دیا۔
خیبرپختونخوا کے سابق ایڈیشنل انسپکٹر جنرل پولیس اور سابق سیکرٹری داخلہ سید اختر علی شاہ نے آج نیوز کو بتایا کہ انصاف وہیں سے شروع ہوتا ہے جب شکایت کنندہ پولیس اسٹیشن جاتا ہے لیکن بدقستمی سے پولیس کچھ واقعات کو چھپانے یا جرائم کی شرح کم دکھانے کی وجہ سے چند واقعات میں مقدمہ درج کرنا نہیں چاہتی، ایسی صورت میں جسٹس آف پیس (سیشن جج) کو کریمنل پروسیجر کوڈ کی دفعہ 22 اے کے تحت ایف آئی آر کے اندراج کا حکم دینے کا اختیاردیا گیا ہے۔
اسی طرح دو ماہ قبل ضلع مردان کی تحصیل تخت بھائی کے 28 سالہ اکرام اللہ ایڈووکیٹ(فرضی نام) کو مخالف فریق کی جانب سے اس وقت قتل کی دھمکیاں ملنا شروع ہوئیں جب اکرام دوسرے فریق کے ملزمان کی ضمانت کے لیے دائر درخواست میں بطور وکیل پیش ہوئے۔
مخالف فریق نے اکرام اللہ کو دھمکی دی کہ وہ کیس میں وکالت چھوڑ دیں ورنہ انہیں قتل کردیا جائے گا جس پر اکرام اللہ نے خیبرپختونخوا بار کونسل کے تعاون سے لائرز پروٹیکشن ایںڈ ویلفئیر ایکٹ 2023 کے سیکشن 3 کے تحت مقدمہ درج کروایا تاہم راضی نامہ ہونے پر مقدمہ ختم کیا گیا۔
خیبرپختونخوا بارکونسل سے حاصل کردہ معلومات کے مطابق اس وقت خیبرپختونخوا میں رجسٹرڈ وکلاء کی تعداد 18 ہزار 950 ہے جن میں 14 ہزار 864 مرد اور 4 ہزار 86 خواتین وکلاء شامل ہیں۔
خیبرپختونخوا بارکونسل سے معلومات تک رسائی درخواست کے تحت حاصل کردہ دستاویز کے مطابق گزشتہ چار سال (2020 سے اب تک) کے دوران مختلف وجوہات کی بناء پر وکلاء پر تشدد کے 36 واقعات رپورٹ ہوچکے ہیں جس میں 22 وکلاء کو قتل کیا گیا ہے، 8 وکلاء کو زخمی کرنے کے واقعات سامنے آئے ہیں جبکہ 5 وکلاء کو اغواء کیا گیا تھا اور ایک وکیل کے گھر پر گرنیڈ سے حملہ کیا گیا۔مذکورہ واقعات میں مجموعی طور پرزیادہ تر وکلاء کو دہشتگردوں نے قتل یا اغواء کیا جبکہ چند واقعات میں فریقین کے مابین جائیداد کے تنازع پر فائرنگ یا تشدد کی گیا۔
بار کونسل کی دستاویز کے مطابق گزشتہ چار سال کے دوران وکلاء پر تشدد کے تمام واقعات میں مقدمات درج کرکے معلوم ملزمان کو گرفتار کیا گیا ہے تاہم 25 فیصد واقعات میں فی الحال ملزمان کی نشاندہی نہیں ہوسکی ۔خیبرپختونخوا بار کونسل کے مطابق گزشتہ چار سال کے دوران وکلاء پرتشدد واقعات کے ملزمان کو سزا نہیں ہوئی کیونکہ مقدمات فی الحال عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔
خیبرپختونخوا بارکونسل ایگزیکٹو کمیٹی کے چئیرمین سید مبشر شاہ ایڈووکیٹ سمجھتے ہیں کہ وکلاء پر تشدد کے واقعات کی تعداد رپورٹ ہونیوالے واقعات سے کئی گنا زیادہ ہے تاہم اکثر وکلاء اپنے کیسز بار کونسل یا بار ایسوسی ایشنز کو رپورٹ نہیں کرتے یا مقدمات وکلاء کی جانب سے خود دائر نہیں کئے جاتے بلکہ خاندان کے کسی دوسرے فرد کی مدعیت میں مقدمہ درج کیا جاتا ہے۔
لائبہ گل نے بھی خود پر ہونے والے تشدد کے واقعے سے متعلق خیبرپختونخوا بار کونسل کو تاحال لاعلم رکھا ہے۔
فرانسیسی نیشنل بار کونسل کے زیر انتظام انٹرنیشنل آبزرویٹری آف لائرز کے مطابق دنیا بھر میں خطرے سے دوچار یا تشدد کا شکار وکلاء کی تعداد کے بارے میں کوئی مستند سرکاری اعداد و شمار موجود نہیں ہیں۔ اس کے باوجود تقریباً ہر روز وکلاء کو صرف ان کے کام کرنے کے لیے قتل کیا جاتا ہے، دھمکیاں دی جاتی ہیں، تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے، مقدمہ چلایا جاتا ہے یا لاپتہ کر دیا جاتا ہے جس لحاظ سے وکلاء کے لیے آج کے خطرناک ترین ممالک میں چین، ایران، ہونڈوراس، فلپائن، کولمبیا، میکسیکو اور پاکستان شمار کیے جاسکتے ہیں۔
اسی طرح گلوبل فنانس میگزین کی جانب سے مجموعی سماجی تحفظ کی ایک جامع تجزیہ پر مشتمل محفوظ ترین ممالک کی فہرست میں آئس لینڈ سر فہرست ہے جبکہ فلپائن دنیا کا سب سے غیرمحفوظ ملک ہے۔134 ممالک کی فہرست میں پاکستان 116 ویں، بنگلادیش 105 ویں، ہونڈوراس 123ویں، میکسیکو 128 ویں اور کولمبیا 133 ویں نمبر پر ہے۔
لائرز پروٹیکشن ایںڈ ویلفئیر ایکٹ 2023 کے سیکشن 2 کے مطابق کسی بھی شخص کی طرف سے کسی وکیل کے خلاف کسی بھی عدالت کے سامنے مقدمات کے غیر جانبدارانہ، منصفانہ اور بے خوف طرز عمل کے عمل کو تعصب، متاثر یا روکنے کے ارادے سے کیا گیا کا عمل تشدد کہلائے گا جس میں درجہ ذیل چھ نکات شامل ہیں۔
(1) ہراساں کرنا، زبردستی کرنا، حملہ کرنا، مجرمانہ قوت یا دھمکی جو زندگی پر اثر انداز ہو یا (وکیل کے کام کرنے کے حالات اور اسے اپنے فرائض کی انجام دہی سے روکنا)، (2) عدالتوں کے احاطے میں یا باہر وکیل کو نقصان پہنچانا، چوٹ پہنچانا یا وکیل کی جان کو خطرنے میں ڈالنا، (3) کسی بھی شخص یا اتھارٹی کی جانب سے اہم معلومات یا مواد کو ظاہر کرنے کے لیے وکیل کو مجبور کرنا، (4) کسی وکیل کو کسی بھی طریقے سے کسی بھی عدالت کے سامنے کسی موکل کی طرف سے نمائندگی کرنے یا اپنا وکالت نامہ واپس لینے یا پیش نہ ہونے کے لیے زبردستی کرنا، (5) کسی بھی وکیل کے املاک یا دستاویزات یا مواد کو نقصان پہنچانا، اور (6) عدالتی کارروائی کے دوران وکیل کے لئے توہین آمیز زبان کا استعمال کرنا، کسی بھی وکیل کے خلاف تشدد تصور ہوگا۔
سپریم کورٹ کے وکیل شاہ فیصل الیاس سمجھتے ہیں کہ اکثر وکلاء کو کریمنل کیسز میں تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے جس میں قتل، اقدام قتل اور دہشتگردی کے مقدمات شامل ہیں کیونکہ اس میں براہ راست فریقین ایک دوسرے کے دشمن ہوتے ہیں۔
پشاور ہائیکورٹ کی وکیل زینب خان ایڈووکیٹ نے بھی شاہ فیصل الیاس کے مؤقف کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ اکثر فوجداری مقدمات میں وکلاء پر تشدد کا امکان زیادہ ہوتا ہے لیکن جائیداد، طلاق، مہر اور بچوں کے حوالگی سے متعلق کیسز میں بھی وکلاء تشدد کا نشانہ بن جاتے ہیں کیونکہ فریقین اسے ذاتی معاملہ سمجھتے ہیں۔ زینب خان نے موجودہ سیاسی کشیدگی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ حکومت کی جانب سے مخالف سیاسی جماعت کے وکلاء پر تھری ایم پی او سمیت مختلف مقدمات بنائے جارہے ہیں، یہ بھی وکلا پرتشدد کے زمرہ میں آتا ہے۔
انصاف لائرز فورم (آئی ایل ایف)خیبرپختونخوا کے مطابق مردان، چارسدہ ،مالاکنڈ، پشاور سمیت خیبرپختونخوا کے مختلف اضلاع میں ایک مخصوص سیاسی جماعت کے کیسز میں پیروی کرنے کی وجہ سے آئی ایل ایف کے 20 سے زائد ممبران کو دہشتگردی، سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے، کار سرکار میں مداخلت سمیت مختلف نوعیت کے مقدمات میں نامزد کیا گیا جس میں تمام وکلاء نے ضمانتیں حاصل کرلی ہیں جبکہ 20 سے زائد آئی ایل ایف ممبران کو ہراساں کرتے ہوئے کئی کو دھمکی آمیز کالز موصول ہوئیں۔
لاء سوسائٹی آف اسکاٹ لینڈ کی تحقیق کے مطابق 40 فیصد کریمنل لائرز، 25 فیصد فیملی لائرز اور 19 فیصد پراسکیوٹرز تشدد کا شکار ہوتے ہیں جبکہ باقی 16 فیصد تشدد کے واقعات ٹیکس، رئیل اسٹیٹ، لیبر، کارپوریٹ، امیگریشن، انٹیلیکچوئل پراپرٹی لائرز کی جانب سے رپورٹ ہوتے ہیں جبکہ خیبرپختونخوا میں کریمنل، سول اور فیملی کیسز میں وکالت کرنیوالے وکلاء کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
پشاور بار ایسوسی ایشن کے صدر اور سینئر قانون دان اشفاق احمد خلیل کا ماننا ہے اکثر مقدمات میں فریق کے ساتھ ساتھ مخالف وکیل کو بھی دشمن سمجھا جاتا ہے اسلئے وکیل کو کسی بھی نوعیت کے مقدمے کی پیروی میں تشدد کا نشانہ بنایا جاسکتا ہے جس کا سارا دارومدار فریقین کے رویہ پر ہوتا ہے۔
پشاور ہائیکورٹ کے وکیل علی گوہر درانی کا کہنا ہے کہ کئی وکلاء مقدمات کو ذاتی طور پر لے لیتے ہیں جبکہ موکل یا فریقین میں وکالت کے شعبے سے متعلق شعور کی کمی کی وجہ سے بھی وکلاء تشدد کا نشانہ بن سکتے ہیں۔ زینب خان ایڈووکیٹ کا بھی ماننا ہے کہ فریقین کے مابین شدید اختلاف کے باعث مقدمے کی پیروی سے ہٹانے کے لیے وکلاء تشدد کا شکار بن جاتے ہیں۔
اشفاق خلیل ایڈووکیٹ نے بتایا کہ جب کوئی کیس ہار رہا ہوتا ہے تو وہ یہ سمجھتا ہے کہ وہ وکیل کی وجہ سے کیس ہار رہا ہے حالانکہ ایسا نہیں کیونکہ وکیل قانون کے مطابق اور مقدمہ میں موجود شہادتوں کی بنیاد پر دلائل پیش کرتا ہے اور عدالت پھر قانون، شہادتوں اور موجود دستاویزات پر فیصلہ دیتی ہے جس سے وکیل کا کوئی لینا دینا نہیں ہوتا۔ چند وکلاء بھی کبھی کبھار پیشہ ورانہ اخلاقیات کو بھول کر غیر ذمہ دارنہ رویہ اختیار کرکے مخالف فریق کو براہ راست مخاطب کرتے ہیں یا ان کی ذات کے حوالے سے کچھ ایسا بول دیتے ہیں جو ان پر تشدد کی وجہ بن سکتا ہے۔
لائرز پروٹیکشن اینڈ ویلفئیر ایکٹ 2023 کے سیکشن 3 کے مطابق جو بھی کسی وکیل کے خلاف تشدد کے عمل کا ارتکاب کرتا ہے یا اس کی حوصلہ افزائی کرتا ہے اسے تین سال تک قید یا ایک لاکھ روپے تک جرمانہ یا دونوں سزائیں ہوسکتی ہیں۔
اسی طرح جو شخص پہلے ہی اس ایکٹ کے تحت کسی جرم کا مرتکب ہونے کے بعد دوسری بار اس ایکٹ کے تحت کسی بھی جرم کے لیے مجرم ٹھہرایا جاتا ہے تو اسے قید کی سزا دی جائے گی جو ایک سال سے کم نہیں ہوگی لیکن اس کی مدت پانچ سال تک ہوسکتی ہے یا جرمانہ جو دو لاکھ روپے تک ہوگا ، یا دونوں سزائیں ہو سکتی ہیں۔
اس ایکٹ کے تحت ہونے والا ہر جرم ناقابل ضمانت ہوگا جس میں صرف عدالت کی اجازت پر راضی نامہ ہوسکتا ہے جبکہ اس ایکٹ کے تحت جرم میں مجسٹریٹ سے اجازت لیے بغیر گرفتاری ہوسکتی ہے۔
اس ایکٹ کے تحت جرم کی انویسٹی گیشن انسپکٹر کے درجے سے نیچے کا پولیس آفیسر نہیں کرسکتا جو 14 دن کے اندر تحقیقات مکمل کرنے کا پابند ہوگا جبکہ عدالت چھ ماہ کے اندر مقدمے کا فیصلہ کرے گی۔
جامعہ پشاور کے شعبہ فلسفہ کے سربراہ اور اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر شجاع احمد کا کہنا ہے تشدد ہمیشہ عدم برداشت کی نشانی ہے کیونکہ جب انسان خود کو ٹھیک اور دوسرے کو غلط سمجھ کر اپنی بات منوانے کے لیے زور زبردستی کرتا ہے تو تشدد کی طرف جاتا ہے۔ڈاکٹر شجاع کا ماننا ہے کہ معاشرے میں سماجی ناانصافی اور نفرت انگیزی کے باعث عدم برادست بڑھتی جارہی ہے جبکہ معاشرے میں تنوع( ڈائی ورسٹی) اور پر امن بقائے باہمی (پیسفل کو ایگزسٹنس) کے بارے میں نہیں سکھایا جاتا ہے کہ اختلاف رائے ہوسکتی ہے جس وجہ سے تشدد کا راستہ اپنایا جاتا ہے۔ڈاکٹر شجاع نے بتایا کہ معاشرے میں ”فن استدلال“ کا انتہائی فقدان ہے اور جب تک دلائل سے گفتگو کو ترجیح نہیں دینگے تب تک تشدد کو روکنا ممکن نہیں۔
امریکہ کے پیرا لیگل ڈویژن آف یوٹاہ اسٹیٹ بار کی جانب سے وکلاء پر تشدد کے موضوع پر تحقیق میں 8 اقسام کے رویوں کی نشاندہی کی گئی ہے جس سے وکلاء کو اندازہ ہونا چاہئیے کہ ان پر تشدد کا امکان ہے۔ جس میں فرد کی جانب سے ممکنہ شکار کے بارے میں معلومات اکٹھا کرنا، تعاقب کرنا، مشکوک پوچھ گچھ، ہدف سے متعلق کسی بھی قابل ذکر سرگرمیوں میں اضافہ، فرد ہتھیارحاصل کرتا ہے، سازوسامان جمع کرتا ہے،ہدف کو نقصان پہنچانے کے ارادے کے تیسرے فریق سے بات چیت، پرتشدد کارروائی کا ثبوت (مثال کے طور پر وصیتیں یا مال کسی دوسرے شخص کے حوالے کرنا) اور براہ راست حملے کی دھکمی دینا شامل ہیں۔
پشاورہائیکورٹ کے وکیل نعمان محب کاکاخیل کا مشورہ ہے کہ وکلاء میں پیشہ ورانہ اخلاقیات سے متعلق آگاہی انتہائی ضروری ہے کہ وہ کسی موکل کے ساتھ تھانے تحصیل نہ جائے بلکہ خود کو صرف وکالت تک محدود رکھتے ہوئے عدالت میں شہادت اور ثبوت پر قانونی دلائل پیش کرے۔ نعمان کاکاخیل نے مطالبہ کیا کہ لائرز پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر ایکٹ پر من وعن عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے تب ہی وکلاء پر تشدد کی روک تھام ممکن ہے۔
پشاور ہائیکورٹ بارایسوسی ایشن کی سابق صدرعائشہ ملک ایڈووکیٹ، اشفاق خلیل اورنازش علی نے بھی مطالبہ کیا کہ وکلاء کے تحفظ سے متعلق قانون پر عملدرآمد ناگزیر ہے کیونکہ قانون پر عملدرآمد نہ ہونے کی صورت میں تشدد کے واقعات کو نہیں روکا جاسکتا۔
زینب خان نے عوام میں آگاہی اور شعور پرزوردیتے ہوئے کہا کہ فریقین کو سمجھانے کی ضرورت ہے کہ کوئی وکیل کسی کا مخالف نہیں ہوتا بلکہ عدالت میں قانونی نکات پر وکالت کرتا ہے۔
خیبرپختونخوا بارکونسل کے ایگزیکٹو کمیٹی کے چئیرمین سید مبشرشاہ ایڈووکیٹ کا مؤقف ہے کہ بار کونسل وکلاء پر شدد کے مقدمات میں پیروی کے لیے نہ صرف سینئر وکلاء پر مشتمل ٹیمیں تشکیل دیکر بلا معاوضہ وکلاء کو قانونی معاونت فراہم کی جاتی ہے بلکہ بہتر تفتیش کے لیے پولیس کے اعلیٰ افسران تک رسائی کو بھی یقینی بنایا جاتا ہے۔مبشر شاہ نے بتایا کہ وکلاء پر تشدد کے واقعات کی صورت میں بارکونسل ہڑتال کا راستہ بھی اپناتی ہے اور مذکورہ ہر واقعہ پر ہڑتال کی کال دی گئی ہے جس کے باعث سائلین ضرور متاثر ہوتے ہیں لیکن وکلاء کے پاس بھی کوئی اور راستہ نہیں ہوتا۔
مبشر شاہ کا کہنا تھا کہ لائرز پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر ایکٹ کوئی بلٹ پروف جیکٹ یا بکتر بند گاڑی نہیں جس سے وکلاء مکمل محفوظ ہوجائیں گے تاہم ایکٹ پر عملدرآمد سے تشدد کے واقعات میں کمی ضرور آسکتی ہے اور ایکٹ پر من وعن عملدرآمد رولز آف بزنس(کوئی عمل کیسے انجام دیا جاسکتا ہے) کی صورت میں ممکن ہے جو تاحال نہیں بنائے جاسکے۔ مبشر شاہ نے بتایا کہ ایکٹ منظوری کے بعد قومی اسمبلی تحلیل ہوئی جبکہ خیبرپختونخوا اسمبلی پہلے تحلیل کی گئی تھی جس کے باعث رولز کی منظوری فی الحال ممکن نہیں کیونکہ رولز کی منظوری اسمبلی سے ہی ممکن ہے جس کے قیام کے لیے عام انتخابات کا انتظار کرنا پڑے گا۔
خیبرپختونخوا کے نگران وزیر قانون جسٹس(ر) سید ارشد حسین شاہ نے آج نیوز کو بتایا کہ وکلاء پر تشدد کے واقعات میں فوری مقدمہ درج کیا جاتا ہے تاہم کبھی کبھار پولیس کو لگتا ہے کہ مقدمہ نہیں بن سکتا ہے اسلئے ایسی صورت میں 22 اے کا راستہ موجود ہے۔
رولز سے متعلق نگراں وزیر قانون کا کہنا تھا کہ ہر ایکٹ کے لیے رولز ناگزیر ہیں اس لیے لائرز پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر ایکٹ کے رولز بنانے کے لیے بار کونسل اور وزارت قانون کے ممبران پر مشتمل کمیٹی جلد تشکیل دے دی جائے گی اور کمیٹی کے منظور شدہ رولز آئندہ حکومت کے حوالہ کئے جائیں گے جبکہ نئی حکومت کے قیام تک گورنر سے منظوری لیکر آرڈیننس کے ذریعے بھی رولز نافذ کئے جاسکتے ہیں۔