آئی سی سی کرکٹ ورلڈ کپ میں پاکستان اور بھارت کی کرکٹ ٹیمیں 14 اکتوبر (کل) کو دنیا کے سب سے بڑے احمد آباد کے نریندرا مودی اسٹیڈیم میں مدمقابل ہوں گی، اس میچ میں کامیابی فاتح ٹیم کو پوائنٹس ٹیبل پر ٹاپ پوزیشن پر پہنچا دے گی۔
ابھی تک ایونٹ میں دونوں ٹیموں نے 2،2 میچز کھیل کر 4،4 پوائنٹس حاصل کیے ہیں۔
میچ سے قبل احمد آباد کے نریندر مودی اسٹیڈیم میں میچ سے قبل ایک رنگارنگ تقریب ہوگی جس میں کئی فن کار پرفارمنس پیش کریں گے۔
میگا ایونٹ میں بھارت کو پاکستان کے خلاف ناقابل شکست ریکارڈ کی وجہ سے برتری حاصل ہوگی۔ اس ورلڈ کپ سے پہلے پاکستان اور بھارت سات بار آمنے سامنے آئے ہیں اور ساتوں مرتبہ کامیابی بھارتی ٹیم کے حصے میں آئی۔
کرکٹ مبصرین کے خیال میں پاک بھارت میچ میں دونوں ٹیموں پر دباؤ ہوتا ہے اور فیلڈ میں جو ٹیم اعصاب پر قابو پانے میں کامیاب رہتی ہے وہ میچ اپنے نام کر لیتی ہے۔
آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی اور ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں تو پاکستانی ٹیم بھارت کو شکست دینے میں کامیاب ہوئی ہے لیکن ون ڈے ورلڈ کپ میں گرین شرٹس کو اپنی پہلی فتح کی تلاش ہے۔
ماضی میں جب جب پاکستان اور بھارت کی ٹیمیں میگا ایونٹ میں آمنے سامنے آئیں تو کوئی نہ کوئی یادگار واقعہ ضرور رونما ہوا۔ شائقین پر امید ہیں کہ اس بار بھی ہونے والا میچ کسی نہ کسی طرح سے یادگار بنے گا۔
ماضی کے ایسے چند میچز پر نظر ڈالتے ہیں جو ورلڈ کپ میں دونوں ٹیموں نے کھیلے اور ان میچز کے دوران پیش آنے والے واقعات شائقین کو آج بھی یاد ہیں۔
پاکستان اور بھارت کی ٹیمیں پہلی مرتبہ 1992 کے ورلڈ کپ میں سڈنی کے مقام پر آمنے سامنے آئیں۔ اس سے پہلے ہونے والے چار ورلڈ کپ ایونٹ میں اس کا مقابلہ نہیں ہوا تھا اس لیے اس میچ میں فتح کے لیے دونوں ہی کپتان پر امید تھے۔
پاکستان نے یہ ورلڈ کپ ضرور جیتا تھا لیکن بھارت کے خلاف میچ میں انہیں 43 رنز سے شکست ہوئی تھی۔ بھارت کے 7 وکٹوں پر 216 رنز کے جواب میں پاکستان ٹیم 173 رنز بناکر آؤٹ ہوگئی تھی۔
اس کامیابی میں بھارت کے نوجوان بلے باز سچن ٹنڈولکر کا کردار نمایاں تھا جنہوں نے 54 رنز کی ناقابلِ شکست اننگز کھیلی تھی۔تاہم ان کی بالنگ کے وقت ایک ایسا واقعہ پیش آیا تھا جس نے اس لمحے کو یادگار بنادیا۔
ٹنڈولکر کی بالنگ پر مسلسل اپیل کرنے پر جاوید میانداد بھارتی وکٹ کیپر کرن مورے سے الجھ پڑے تھے، دونوں کے اس جھگڑے کو ختم کرنے کے لیے امپائر ڈیوڈ شیپرڈ نے بیچ بچاؤ کرایا۔لیکن جب کرن مورے اپیل کرنے سے باز نہ آئے تو جاوید میانداد نے ہوا میں چھلانگ لگا کر ان کی نقل کی اور شائقین کو محظوظ کرنے کا موقع اپنے ہاتھ سے نہ جانے دیا۔
چار سال بعد جب پاکستان بھارت اور سری لنکا نے مشترکہ طور پر ورلڈ کپ کی میزبانی کی تو کوارٹر فائنل کھیلنے کے لیے پاکستان کو بھارت کے شہر بنگلور جانا پڑا، جہاں دونوں ٹیمیں ورلڈ کپ میں دوسری بار مدِمقابل آئیں۔
اس میچ میں بھی پاکستانی ٹیم بھارت کے اسکور آٹھ وکٹ پر 287 رنز کے جواب میں نو وکٹ پر صرف 248 رنز ہی بناسکی۔ ایک موقع پر پاکستانی اوپنرز کی جارحانہ بیٹنگ کی وجہ سے تماشائی خاموش تھے لیکن مڈل آرڈر کی مایوس کن کارکردگی پاکستان کی فتح کی راہ میں رکاوٹ بن گئی۔
میچ میں پاکستانی ٹیم کی قیادت کپتان وسیم اکرم کے بجائے عامر سہیل نے کی جو گرین شرٹس کی جانب سے نصف سینچری بنانے والے واحد کھلاڑی تھے۔ اپنی ففٹی مکمل کرنے کے بعد انہوں نے بھارتی بالر وینکاٹیش پرساد کو چوکا مارنے کے بعد دباؤ میں لانے کے لیے بلا دکھا یا جو انہیں مہنگا پڑا۔
اگلی ہی گیند پر پرساد نے نہ صرف پاکستانی کپتان کو واپس پویلین بھیج دیا بلکہ پوری ٹیم کو مشکل میں ڈال دیا۔ 113 کے مجموعی اسکور پر دو کھلاڑی آؤٹ کے اسکور سے پوری ٹیم 248 رنز تک ہی پہنچ سکی، جس میں تین وکٹیں لینے والے پرساد کا بہت بڑا ہاتھ تھا۔
سن 1999 کے ورلڈ کپ میں بھی بھارتی بالر وینکاٹیش پرساد کی تباہ کن بالنگ کی وجہ سے گرین شرٹس کو سپر سکس مرحلے کے اہم میچ میں 47 رنز سے شکست ہوئی۔
مانچسٹر کے مقام پر بھارت کو چھ وکٹ پر 227 رنز پر محدود کرنے کے باوجود پاکستانی ٹیم میگا ایونٹ میں مسلسل تیسری بار بھارت کے خلاف کامیابی حاصل نہ کر سکی۔ 228 رنز کے تعاقب میں کوئی بھی پاکستانی بلے باز وینکاٹیش پرساد کی نپی تلی بالنگ کے سامنے مزاحمت نہیں کر سکا۔
پرساد نے 27 رنز دے کر پانچ کھلاڑیوں کو واپس پویلین بھیجا۔
پرساد کا بھرپور ساتھ دیا جواگل سری ناتھ اور انیل کمبلے نے جن کی کوششوں کی وجہ سے گرین شرٹس صرف 180 رنز پر ڈھیر ہوگئے۔ لیکن اس ناکامی کے باوجود ایونٹ کے فائنل میں پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔
سن 2003 کا کرکٹ ورلڈ کپ جنوبی افریقہ میں کھیلا گیا جہاں کی وکٹوں کو فاسٹ بالرز کے لیے سازگار سمجھا جاتا ہے۔ لیکن پاکستان اور بھارت کے میچ میں صرف سچن ٹنڈولکر ہی چھائے رہے اور 98 رنز اسکور کرنے میں کامیاب ہوئے۔
کپتان وقار یونس، وسیم اکرم، شعیب اختر اور محمد سمیع جیسے پیسرز کی موجودگی میں ٹنڈولکر نے صرف 75 گیندوں پر 98 رنز بنائے۔ دو رنز کی کمی کی وجہ سے وہ سینچری سے تو محروم ہوگئے لیکن ان کی اننگز میں شامل 12 چوکوں اور ایک چھکے کو شائقین آج بھی بھول نہیں پائے۔
سینچورین میں کھیلے گئے اس میچ میں پاکستان نے سعید انور کی سینچری کی بدولت سات وکٹ پر 273 رنز بنائے تھے۔ لیکن ٹنڈولکر کے 98 اور یوراج سنگھ کے 50 ناٹ آؤٹ کی وجہ سے بھارت نے یہ میچ چھ وکٹ سے جیت لیا۔
یہ پاکستان کی بھارت کے خلاف ورلڈ کپ مقابلوں میں مسلسل چوتھی شکست تھی، جس کے بعد اگلے معرکے کے لیے دونوں ٹیموں کو آٹھ سال انتظار کرنا پڑا۔
سال 2007 کے ورلڈ کپ میں پاکستان اور بھارت کی ٹیمیں یکے بعد دیگرے پہلے ہی راؤنڈ میں باہر ہو جانے کی وجہ سے آمنے سامنے نہیں آسکیں، لیکن 2011 کے سیمی فائنل میں دونوں کا ٹکراؤ ہو گیا۔
موہالی میں کھیلے گئے اس ناک آؤٹ مقابلے میں ایک بار پھر سچن ٹنڈولکر پاکستان کے سامنے چٹان بن کر کھڑے ہوگئے اور انہوں نے 85 رنز کی اننگز کھیلی۔
میچ میں پانچ وکٹیں لینے والے وہاب ریاض کی کارکردگی تو سب کو یاد ہے۔ لیکن سعید اجمل کی بالنگ پر ٹنڈولکر کا وہ آؤٹ اس سے زیادہ مقبول ہوا جسے تھرڈ امپائر نے رد کردیا تھا۔
پاکستانی شائقین کے خیال میں ڈی آر ایس کا فیصلہ غلط تھا اور 12 سال گزرنے کے باوجود سعید اجمل کا بھی یہی ماننا ہےکہ تھرڈ امپائر کو جو ویڈیو دکھائی گئی اس میں ردوبدل کیا گیا تھا۔
اس میچ میں پاکستانی فیلڈرز نے متعدد کیچز بھی گرائے جب کہ چند مداحوں نے مصباح الحق کو اس میچ کے بعد ٹک ٹک کا بھی خطاب دیا، کیوں کہ انہوں نے تیز کھیلنے کے بجائے وکٹ بچانے کو ترجیح دی تھی۔
پاکستانی کرکٹ ٹیم کی اگلے دو ورلڈ کپ ایونٹس میں بھی بھارت کے خلاف کارکردگی مایوس کن رہی، دونوں ٹیمیں گروپ اسٹیج میں آمنے سامنے آئیں، لیکن صرف بھارت کو کامیابی ملی۔
سال 2015 کے ورلڈ کپ میں ایڈیلیڈ کے مقام پر وراٹ کوہلی کی سینچری کی وجہ سے گرین شرٹس کو 76 رنز سے شکست ہوئی۔
اس میچ میں پاکستانی فاسٹ بالر سہیل خان کی پانچ وکٹیں بھی ٹیم کو فتح سے ہمکنار نہ کراسکیں۔ 301 رنز کے تعاقب میں پوری ٹیم 224 رنز بناکر آؤٹ ہو گئی۔
سال 2019 کا ورلڈ کپ بھی پاکستان کی قسمت نہ بدل سکا۔ مانچسٹر کے مقام پر روہت شرما نے 113 گیندوں کا سامنا کر کے 14 چوکے اور تین چھکوں کی مدد سے 140 رنز کی اننگز کھیل کر بھارت کو فاتح بنایا۔
کے ایل راہل اور وراٹ کوہلی کی نصف سینچریوں نے بھی بھارت کی 336 رنز اسکور کرنے میں مدد کی تھی۔محمد عامر تین وکٹوں کے ساتھ سب سے کامیاب پاکستانی بالر رہے تھے۔
بارش سے متاثرہ میچ میں پاکستانی ٹیم کو ڈک ورتھ لیوس میتھڈ کے تحت 40 اوورز میں 302 رنز کا ٹارگٹ ملا جسے وہ حاصل کرنے میں ناکام رہے اور چھ وکٹ پر صرف 212 رنز ہی بناسکے۔
یوں ورلڈ کپ مقابلوں میں پاکستانی ٹیم کو بھارت کے خلاف سات میں سے سات میچز میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
ہفتے کو دونوں ٹیموں کے درمیان آٹھواں میچ ہونے جا رہا ہے جس میں میزبان ٹیم کا پلڑا بھاری دکھائی دے رہا ہے۔