متحدہ عرب امارات کی بھرتی ایجنسیوں پرالزام ہے کہ بطور گھریلو ملازم ملازمت حاصل کرنے والی خواتین کو حراست میں رکھاجا رہا ہے، ان کے ساتھ بدسلوکی کی جا رہی ہے اور بھرتی کرنے والے انہیں ایپس اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے ذریعے گھریلو آجروں کو فروخت کرتے ہیں۔
برطانوی اخبار گارڈین کی جانب سے لیے گئے انٹرویوز اور دستاویزات کے مطابق مشرقی افریقہ اور فلپائن سے تعلق رکھنے والی 14 خواتین نے کئی سالوں میں کیے گئے انٹرویوز کے سلسلے میں بھرتی کرنے والی ایجنسیوں کے ساتھ اپنے تجربات بیان کیے، جن میں یہ الزام بھی شامل تھا کہ انہیں کھانا دینے سے انکار کیا گیا، یرغمال بنایا گیا اور پُرتشدد سلوک کیا گیا۔
دی گارڈین میں شائع رپورٹ کے مطابق اس بات کے ثبوت دیکھے گئے ہیں کہ خواتین کو غلامی کی یاد دلاتے ہوئے ’استحصالی‘ انداز میں مارکیٹ کیا جارہا ہے۔ تآجروں سے سیاہ فام گھریلو ملازمین کی خدمات کے لیے کم معاوضہ لیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ انہیں مناسب بیڈروم فراہم کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔
تارکین وطن انتظار کرتے ہیں کہ آجر ان کا ساتھ دے اس میں کئی ماہ لگ سکتے ہیں جس میں خواتین کو اکثر آجر کی مرضی سے ایجنسیوں کو واپس کردیا جاتا ہے۔
گارڈین کی رپورٹ کے مطابق ایک خاتون نے بتایا کہ جس لمحے ہم اترے ایجنسی کے عملے نے ہمارا پاسپورٹ لے لیا۔ پھر ہم جہاں گئے ایک چھوٹے سے کمرے میں آٹھ یا نو افراد سو رہے تھے۔ موبائل فون استعمال کرنے کی اجازت نہیں تھی اور ہم اس وقت تک فرش پر ایک ساتھ لیٹے رہتے جب تک کہ کوئی ہمیں خرید نہ لے۔
جن لوگوں سے انٹرویو کیا گیا ان سب کو متحدہ عرب امارات میں ان کے آبائی ممالک میں کام کرنے کے لیے بھرتی کیا گیا تھا ، کچھ نے ان کی برادریوں کے ممبروں نے بروکرز کے طور پر کام کیا تھا اور دیگر نے فیس بک پر اشتہارات کا جواب دیا تھا۔ بہت سے لوگوں کو توقع تھی کہ جب وہ دبئی پہنچیں گے تو انہیں فوری طور پر آجر کے پاس رکھا جائے گا۔ اس کے بجائے، انہیں کئی مہینوں تک اپنی ایجنسی کی رہائش گاہ میں بند رکھا گیا اور گھر پر اپنے اہل خانہ کی کفالت کے لیے تنخواہ نہیں ملی۔
28 سالہ اینجلیکا پائن کو 2019 میں ایک ایجنسی نے4 ماہ تک حراست میں رکھا تھا۔ ان کا دعویٰ ہے کہ عملے کی خاتون رکن نے ان پر تشدد کیااور موبائل فون جیسی ذاتی چیزیں بھی لے لیں۔
دی گارڈین نے ان میں سے کچھ خواتین سے تین سال تک بات کی ۔ کچھ اپنے سفارت خانوں سے وطن واپسی کی امداد حاصل کرنے کے بعد اب آبائی ممالک واپس پہنچ چکی ہیں اور اپنے تجربات پر گواہی دینے کے قابل ہیں۔بہت سی خواتین ذاتی طور پردیگرخواتین کو جانتے ہیں جو بھرتی ایجنسی کی رہائشگاہ میں پھنسی ہوئی ہیں۔
کینیا سے تعلق رکھنے والی 34 سالہ مریم متحدہ عرب امارات میں پھنسی ہوئی ہیں اور انہوں نے گارڈین کو بتایا کہ وہ اپنے آجر کو چھوڑنا چاہتی ہیں۔ وہ ہر روز 18 گھنٹے سے زیادہ کام کرنے سے تھک چکی ہیں، ان کی اجرت بغیر کسیچھٹی کے، ماہانہ 327 ڈالر (270 پاؤنڈ) کے مساویہے۔ ۔ وہ الزام لگاتی ہیں کہ ان کے بیڈروم میں کیمرے نصب کیے گئے تھے، کپڑے تک بدلنا مشکل ہے کیونکہ وہ جانتی ہیں کہ وہ انھیں دیکھ سکتے ہیں۔ انہوں نے بھرتی کرنے والوں سے واپسی کیلئےمدد مانگی لیکن ان پر ’ڈرامہ پیدا کرنے‘ کا الزام لگادیا گیا۔
متحدہ عرب امارات کی بھرتی ایجنسیاں باقاعدگی سے ان خواتین کی تشہیر کرتی ہیں جو وہ آن لائن فروخت کے لیے رکھتی ہیں۔۔ دی گارڈین نے ان میں سے درجنوں اشتہارات فیس بک، انسٹاگرام اور ٹک ٹاک پر تلاش کیے ہیں، جہاں خواتین کی تصاویر ان کی ذاتی معلومات کے ساتھ آویزاں کی جاتی ہیں، جہاں ممکنہ خریدار صفحات پر تبصرے چھوڑتے ہیں اور قیمتوں کے بارے میں پوچھتے ہیں۔
یہ تمام اشتہارات بھرتی ایجنسیوں کی طرف سے پوسٹ کیے گئے تھے جنہیں متحدہ عرب امارات کی حکومت سے کام کرنے کا لائسنس دیا گیا تھا ، اوریہ مبینہ طور پر ایسی کمپنیوں کے طور پر تصدیق شدہ ہیں جو آجروں اور گھریلو کارکنوں کے حقوق کا تحفظ کرتی ہیں۔
کینیا سے تعلق رکھنے والی 27 سالہ نیا کہتی ہیں کہ ’عملہ آپ کو حجاب پہننے پر مجبور کرتا ہے، پھر وہ آپ کی ویڈیو بناتے ہیں۔اگر کسی کو آپ کا پروفائل پسند ہے، تو وہ دفتر آتا ہے اور آپ مکا براہ راست انٹرویو کرتے ہیں. آپ کے پاس کوئی آپشن نہیں کیونکہ آپ کو ایک نوکری کی ضرورت ہے‘۔
نیا 3 ماہ تک دبئی کے ایک کمپاؤنڈ میں بند رہیں جس میں ان کی ایجنسی نے 2021 میں خواتین کو رکھا تھا۔
ایک لائسنس یافتہ بھرتی ایجنسی Maids.cc کے پاس ایک ایپ اور ویب سائٹ ہے جہاں سے لوگ گھریلو ملازمہ کو منتخب کرسکتے ہیں، آرڈر دے سکتے ہیں اور اس کے لیے ادائیگی کرسکتے ہیں۔ اسی دن ملازمہ کی فراہمی کا بتانے کے علاوہ یہ لالچ بھی دیا جاتا ہے کہ ملازمہ ایجنسی کے قانونی ویزے پر رہتی ہے اس لیے کچھ غلط ہونے کی صورت میں قانونی نتائج سے متعلق فکرمند ہونے کی ضرورت نہیں۔
ویب سائٹ کے مطابق ادا کی جانے والی ماہانہ قیمت نسل کے مطابق ہوتی ہے،سیاہ فام گھریلو ملازمہ کی خدمات کے لئے کم معاوضہ لیا جاتا ہے۔ فلپائنی ملازمی 3,500 درہم (952 ڈالر) ماہانہ اور افریقی 2,700 درہم(735 ڈالر) کا بتاتے ہوئیہ واضح نہیں کیا گیا کہ وکرانی کو تنخواہ کی مد میں کتنے پیسے دیے جاتے ہیں۔کام اور رہنے کے حالات بھی نسل کی بنیاد پر طے کیے جاتے ہیں۔ فلپائنی نوکرانیوں کو سونے کے لیے اپنے بیڈروم کی ضرورت ہوتی ہے ، جبکہ افریقی گھریلو ملازماؤں کیلئے ایسا نہیں ہے۔
اس کے علاوہ ابوظہبی میں ایک اور ایجنسی لیڈرشپ ٹیڈبیر (جسے کبھی کبھی ٹیڈبیر ڈبلیو ٹی سی کے نام سے بھی جانا جاتا ہے) ٹک ٹاک اور انسٹاگرام پر نوکراؤں کی تشہیر کرتی ہے۔ انسٹا گرام پر جن خواتین کی تشہیر کی گئی ان کا تعلق انڈونیشیا، ایتھوپیا اور سری لنکا سے ہے۔ ان کی خدمات 1100 درہم سے 1400 درہم ماہانہ میں فروخت کی جا رہی ہیں۔
ہیومن رائٹس واچ سے وابستہ روتھنا بیگم کہتی ہیں کہ ’متحدہ عرب امارات میں طویل عرصے سے گھریلو ملازمین کہ ذاتی تفصیلات کے ساتھ قومی بنیاد پر اشتہار دینے کا رواج رہا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکام گھریلو ملازمین کے حقوق کے تحفظ کے لیے کتنا کم کام کر رہے ہیں‘۔
لیڈرشپ تدبیر کے ایک ترجمان نے کہا، ’آپ نے جس مسئلے کو اجاگر کیا ہے، اس کے بارے میں، یہاں متحدہ عرب امارات میں ہمارے وزیر برائے انسانی وسائل نے اسپانسر، کارکن اور ایجنٹوں کے درمیان تعلقات کو منظم کیا ہے‘۔ یہ مت بھولیں کہ مفت رہائش، مفت کھانا، مفت ذاتی عملہ، فون الاؤنس اور اچھی ہیلتھ انشورنس بھی ہے۔متحدہ عرب امارات میں 200 سے زیادہ قومیتیں محفوظ طریقے سے ایک ساتھ رہتی ہیں. یہاں ہر کوئی ایک دوسرے کا احترام کرتا ہے۔
دریں اثنا دبئی میں قائم الفارسن تاڈبیر ایجنسی کے انسٹاگرام اور فیس بک پر اشتہارات میں نوکرانی کا نام، عمر، ازدواجی حیثیت، پاسپورٹ نمبر، قومیت، بچوں کی تعداد اور وزن درج ہیں جبکہ تصاویر کے ساتھ ان کی ’رنگت‘ کو ’منصفانہ‘، ’سیاہ‘ وغیرہ جیسے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔
متحدہ عرب امارات کی حکومت کے ایک ترجمان نے گارڈین کو بتایا، ’یو اے ای کام کی جگہوں پر بدسلوکی کے خلاف صفر رواداری کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ قانون ان ملازمین کے ساتھ کسی بھی قسم کی بدسلوکی کی ممانعت کرتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ، ’جب بھی افراد یا ادارے اس طرح سے کام کرتے ہیں جو متحدہ عرب امارات کے قانون کی خلاف ورزی کرتا ہے تو ہم جامع تحقیقات کرتے ہیں۔ جو لوگ قصور وار پائے جاتے ہیں انہیں جوابدہ ٹھہرایا جاتا ہے۔
متحدہ عرب امارات کے لیبر قانون کے مطابق تمام ملازمین کو تنخواہ کے ساتھ چھٹی، آرام کے دن، میڈیکل انشورنس، رہائش، کھانے، ذاتی شناختی کارڈ رکھنے اور مفت قانونی معاونت تک رسائی حاصل ہونی چاہیے۔ متحدہ عرب امارات اپنی لیبر فورس کے کام کے حالات کو بہتر بنانے اور کسی بھی خلا کو دور کرنے کے لیے قوانین ، ضوابط اور نگرانی کے اقدامات پر عمل درآمد میں فعال اور ٹھوس اقدامات جاری رکھے ہوئے ہے۔