خلائی ایجنسیوں نے ہوا اور پانی کی عدم دستیابی کے باوجود چاند کو تسخیرتو کرلیا لیکن وہاں کیمپ قائم کرنے کی امید رکھنے والی ان ایجنسیوں کے لیے سب سے پریشان کن چیلنج چاند پر موجود ’دھول‘ ہے جس کا انوکھا حل نکال لیا گیا،
کیمپ قائم کرنے کی راہ میں رکاوٹ کیمپ کی یہ دھول خلائی سوٹس کو ختم، مشینری بند اور سائنسی آلات میں مداخلت کرنے کے علاوہ گھومنے پھرنے کو بھی مشکل بنادیتی ہے۔
اب سائنس دانوں نے ایک ممکنہ حل نکالا ہے جس سے چاند کی دھول کو ایک بڑے لینس کا استعمال کرتے ہوئے پگھلایا جا سکتا ہے تاکہ ٹھوس سڑکیں اور لینڈنگ ایریا بنائے جا سکیں۔
برلن میں فیڈرل انسٹی ٹیوٹ آف میٹریل ریسرچ اینڈ ٹیسٹنگ کے پروفیسر جینز گنسٹر کے مطابق، ’آپ سوچ سکتے ہیں کہ چاند پر سڑکوں کی کس کو ضرورت ہے؟‘ ’’لیکن حقیقت میں یہ ایک طرح کا مایوس کن مطالبہ ہے، یہاں کوئی ماحول نہیں ، کشش ثقل کمزور ہے، لہذا دھول ہر جگہ پہنچ جاتی ہے. یہ نہ صرف آپ کے سازوسامان بلکہ دیگر ممالک کو بھی آلودہ کرتی ہے۔ کسی دوسرے راکٹ سے دھول میں ڈھک جانے سے کوئی بھی خوش نہیں ہوگا‘۔
دھول نے چاند ہر جانے والے پچھلے مشنوں کو متاثر کیا ہے ، جیسے سروئیر 3 خلائی جہاز (اپولو 12 کی لینڈنگ سے پیدا ہونے والی دھول سے نقصان پہنچا)۔ اس چیلنج پر قابو پانا ناسا کی ترجیح ہے لیکن چاند پر ایک مستقل چوکی قائم کرنے کیلئے تعمیراتی مواد کو چاند پر منتقل کرنا بہت مہنگا ہوگا ، لہذا غیر روایتی حل کی ضرورت ہے۔
گنسٹر نے کہا کہ، چاند پرموجود چیزوں کو استعمال کرنے کی ضرورت ہے اور یہ صرف ڈھیلی دھول ہے’۔
پروفیسر جینز گنسٹر اور ساتھیوں نے یورپی خلائی ایجنسی کی جانب سے چاند کی مٹی کے متبادل کے طور پر تیار کیے گئے ای اے سی-1 اے نامی ایک باریک مادے کا تجربہ کیا۔ انہوں نے دھول کو تقریبا 1600 سینٹی گریڈ تک گرم کرنے اور اسے پگھلانے کے لئے 50 ملی میٹر قطر کی لیزر بیم کا استعمال کیا۔ آہستہ آہستہ 25 سینٹی میٹر چوڑی مثلث کی شکلوں کا سراغ لگایا ، جو چاند کی مٹی کے بڑے علاقوں میں ٹھوس سطحیں بنانے کے لئے ایک دوسرے سے منسلک ہوسکتی ہیں اور مستقبل کی سڑکوں اور لینڈنگ پیڈ کے طور پر کام کرتی ہیں۔
اڑن طشتریوں اور ایلینز سے متعلق رپورٹ کے اجراء کے بعد ناسا پینل کا ڈائریکٹر تبدیل
امریکی خلائی ایجنسی ناسا کے کچھ خفیہ اور اہم راز
دنیا کو مکمل اندھیرے میں ڈوبنے سے 30 منٹ پہلے خبردارکرنے والا نظام
انہو ں نے بتایا کہ یہ عمل تیز نہیں کیونکہ ہر چھوٹے جیومیٹرک یونٹ کو تیار کرنے میں تقریبا ایک گھنٹہ لگتا ہے ، جس کا مطلب ہے کہ 10 × 10 میٹر لینڈنگ اسپاٹ بنانے میں تقریبا 100 دن لگیں گے۔
اندازہ ہے کہ لیزر کی جگہ سورج کی روشنی کے کنسنٹریٹر کے طور پر کام کرنے کے لیے زمین سے تقریبا 2.37 مربع میٹر کے لینس کو منتقل کرنے کی ضرورت ہوگی۔
لینس کو پولیمر ورق سے بنایا جاسکتا ہے جسے رول اپ کیا جاسکتا ہے ، اس سے نقل و حمل آسان ہوجاتی ہے لیکن دھول اب بھی عینک کے لیے ایک مسئلہ ہوگی۔
گنسٹر نے مزید کہا کہ، ’جب آپ لینس پر دھول جمع کرتے ہیں تو یہ جلد یا بدیر مزید کام نہیں کرے گا‘۔یک وائبریٹنگ لینس اس مسئلے کو کم کرنے میں مدد کرسکتا ہے۔
اس تحقیق کے نتائج سائنسی جریدے سائنٹیفک رپورٹس میں شائع ہوئے ہیں۔