ماہر قانون سلمان اکرم راجہ کا کہنا ہے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس کے فیصلے کی اہم بات یہ ہے کہ آٹھ سات کی اکثریت سے سپریم کورٹ نے کہا کہ ماضی میں جو آئین کے آرٹیکل 184/3 کے تحت جو فیصلے ہوچکے ہیں، جن میں میاں نواز شریف کی نااہلی کا فیصلہ بھی شامل ہے، ان فیصلوں کے خلاف اپیل نہیں ہوسکے گی۔
پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس کے حوالے سے آج نیوز کے پروگرام ”اسپاٹ لائٹ“ میں گفتگو کرتے ہوئے سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ جن لوگوں نے یہ قانون بنایا تھا اس کے پیچھے یہی محرک تھا کہ ماضی میں جو فیصلے ہوئے ان کے خلاف اپیل کی جائے تاکہ میں نواز شریف اپنی نااہلی کو دوبارہ عدالت میں چیلنج کرسکیں، لیکن وہ دروازہ آج بند ہوگیا۔
انہوں نے ”نظرثانی“ اور ”اپیل کے حق“ میں فرق واضح کرتے ہوئے کہا کہ نظر ثانی ایک محدود اپیل ہوتی ہے جس میں آپ کو بتانا ہوتا ہے کہ جو فیصلہ ہوا ہے اس میں فاش غلطی کیا ہے۔
سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ آج کے فیصلے کے بعد 184/3 کے فیصلے کے خلاف اپیل حق مل گیا ہے، آئندہ جو 184/3 کا فیصلہ ہوگا اس کے خلاف اپیل ہوسکے گی، اپیل میں آپ نئے سرے سے پورا کیس بحث کرسکتے ہیں، اس لیے اپیل ایک زیادہ مضبوط اور مستحکم علاج ہے۔
اٹارنی جنرل کی جانب سے سپریم کورٹ میں حلف نامہ جمع کرائے جانے کے باوجود سویلینز کے ملٹری ٹرائل شروع ہونے پر ان کا کہنا تھا کہ یہ سپریم کورٹ کے حکم کی صریحاً خلاف ورزی اور حکم عدولی ہے، ہم نے اس حوالے سے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کردی ہے، سپریم کورٹ کو آگاہ کردیا گیا ہے ان کے حکم کے باوجود ٹرائل شروع کردیا گیا ہے، اٹارنی جنرل کا بھی خط لکھا جارہا ہے کہ انہوں نے عدالت کے سامنے واضح بیان دیا تھا کہ ایسا کچھ نہیں ہوگا، ان کے بیان کی بھی نفی کی جارہی ہے، ان پر فرض بنتا ہے کہ وہ اپنے بیان اور عدالت کے فیصلے کی حرمت کو قائم رکھیں۔
پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے سینئیر ماہر قانون وسیم سجاد نے کہا کہ اس فیصلے کا سیاسی اثر یہ ہوگا کہ جو بھی 184/3 کے تحت لوگ نااہل ہوئے نمایاں طور پر نواز شریف اور جہانگیر ترین، ان کا خیال تھا کہ انہیں اپیل کا حق مل جائے گا، گو کہ سپریم کورٹ نے یہ نہیں مانا۔ لیکن اس کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ پارلیمنٹ نے الیکشن ایکٹ 2017 میں ترمیم کرکے یہ کہا تھا کہ تاحیات نااہلیت کی حتمی مدت پانچ سال ہوگی، جو قانون بن گیا ہے۔ تو جہاں تک قانون کا تعلق ہے نااہلیت پانچ سال بعد ختم ہوچکی ہے۔
انہوں نے کہا کہ نواز شریف اور جہانگیر ترین جب اپنے پیپرز فائل کریں گے تو ہوسکتا ہے اعتراض کیا جائے کہ یہ قانون غلط ہے اور آئین کے خلاف ہے تو یہ معاملہ دوبارہ ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ میں جائے گا کہ کیا الیکشن ایکٹ 2017 میں کی گئی ترمیم درست ہے یا نہیں، آئندہ یہ سوال اٹھے گا اور اس کے سیاسی اثرات ہوں گے۔
وسیم سجاد نے کہا کہ میرے خیال میں نواز شریف کی نااہلیت کا معاملہ ریٹرننگ افسر کے سامنے اٹھے گا اور اس کے پاس کوئی جواز نہیں ہوگا یہ کہنے کا کہ میں قانون کو نہیں مانتا، وہ تو کہے گا کہ نااہلیت 5 سال کی ہے، لیکن اس کو چیلنج کیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ اس فیصلے سے ایک پیغام آتا ہے کہ یہ سپریم کورٹ کی جانب سے پارلیمنٹ کو مضبوط کرنے کی جانب ایک قدم ہے، اس فیصلے کا سیاق و سباق یہ ہے کہ سپریم کورٹ کو آرٹیکل 191 کے تحت رول بنانے کی پاور دی گئی ہے، اسی آرٹیکل میں لکھا ہے ’This is subject to law‘ (یہ قانون کے تابع ہے)، تو سپریم کورٹ کے سامنے سوال یہ تھا کہ کیا ’لاء‘ کا مطلب یہ ہے کہ جو رولز بن گئے ہیں اس میں مداخلت ہوسکتی ہے اور رائٹ آف اپیل یا تین ممبرز کا جو بینچ بنا ہے یہ ہوسکتا ہے، یا ’لاء‘ کو ہم محدود کریں اور اس کو اتنا وسیع نہ کریں کہ یہ سپریم کورٹ کے پہلے سے بنے ہوئے رولز میں مداخلت کرسکے۔
ان کا کہنا تھا کہ فیصلے کا یہ مطلب نہیں کہ یہ ہرجگہ لاگو ہوگا اس کو 191 کے سیاق وسباق میں ہی دیکھا جائے گا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ سویلنز کا ٹرائل آرمی ایکٹ میں ترمیم کے تحت کیا جارہا ہے جس کو چیلنج کیا گیا ہے، اس ضمن میں اٹارنی جنرل نے بیان دیا تھا کہ ہم کوئی ٹرائل شروع نہیں کریں گے، تو بادی النظر میں یہ سپریم کورٹ کی توہین ہے۔
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے وکیل شعیب شاہین نے بھی اپنئے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا ماننا تھا یہ قانون تو بہتر ہے لیکن اس میں دو چیزیں غلط ہیں، ایک تو یہ کہ اپیل کا حق جو آپ دے رہے ہیں اس کو آئینی ترمیم کے زریعے دے سکتے ہیں، اور دوسرا ہمارا سوال یہ تھا کہ ماضی کے فیصلوں پر اس کا اطلاق نہیں کرسکتے۔ تیسرا ہمیں اعتراض یہ تھا کہ اگر آپ نے تین ججز کی کانسٹیٹیوشنل بینچ بھی کرنی ہے تو وہ بھی آئین میں ترمیم کے بغیر نہیں ہوسکتا۔
ان کا کہنا تھا کہ آئین اور اداروں کی خالق پارلیمنٹ ہے، پارلیمنٹ کے فیصلوں میں عوام کی مرضی شامل ہے کیونکہ اس میں عوام کے نمائندے شامل ہیں، اور عوام کا فیصلہ ہر ایک نے ماننا ہے، لیکن یہ پارلیمنٹ پر منحصر ہے کہ کیا وہ اپنی ذاتیات سے بالاتر ہوکر واقعی عوام کی مرضی اور صدق دل کے ساتھ قانون سازی کرتے ہیں یا نہیں۔