سپریم کورٹ کے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کو قانون کو آئین اور قانون کے مطابق قرار دیے جانے کو قانونی ماہرین نے عدالتِ عظمیٰ کی جانب سے پارلیمنٹ کی بالادستی قبول کرنے کے مترادف قرار دیا ہے، تاہم نواز شریف اور جہانگیر ترین نااہلیت کے فیصلوں کے خلاف اپیل دائر نہیں کرسکیں گے۔
قانونی ماہر وقاص ابریز انے آج نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ججز کا اختلاف معنی نہیں رکھے گا، دس ججز کی اکثریت نے درخواستوں کو مسترد کیا ہے، ان درخواستوں میں کہا گیا ہے کہ پارلیمنٹ کی جانب سے کو قانون بنایا گیا ہے یہ سپریم کورٹ کی حدود میں مداخلت کے مترادف ہے، پارلیمان ان معاملات پر قانون سازی نہیں کرسکتی۔ لیکن چیف جسٹس نے ہمت کا مظاہرہ کیا اور معاملے کو واضح کیا کہ کل کلاں کو اس پر کوئی ابہام نہ رہے۔
انہوں نے کہا کہ چیف جسٹسز کی جانب سے 184/3 کو شتر بے مہار کی طرح استعمال کیا گیا، لیکن اس کو بہت زیادہ سراہا نہیں گیا، چیف جسٹس عمر عطا بندیال اپنی مرضی کی بینچز بناتے تھے، اور یہ کہا جاتا تھا کہ اپنی مرضی کے فیصلے بھی کرواتے تھے۔ یہ ایکٹ بنا بھی نہیں تھا کہ بننے سے پہلے ہی انہوں نے اسے روک دیا۔
آج نیوز کے بیورو چیف اور سینئیر صحافی و تجزیہ کار طارق چوہدری کا کہنا ہے کہ کافی عرصے سے یہ تنازعہ تھا اس ملک میں کہ کیا عوام کی منتخب کردہ پارلیمنٹ کو یہ اختیار حاصل ہے کہ سپریم کورٹ کے رولز اور پروسیجرز کو تبدیل کرسکے، آج اس فیصلے کے بعد یہ بات مسلمہ طور پر ثبت ہوجاتی ہے کہ کوئی بھی فیصلہ ہو، خاص طور پر سپریم کورٹ کے قواعد کے حوالے سے تو پارلیمنٹ مجاز ہے کہ وہ قانون سازی کرسکے۔
انہوں نے کہا کہ سوموٹو ہو یا بینچ کی تشکیل، نظر ثانی کی اپیل ہو یا کوئی اور اپیل یہ ساری چیزیں کافی عرصے سے حل طلب تھیں اور بعض اوقات مسائل پیدا ہوتے تھے، ہائی پروفائل کیسز میں بھی بہت سی مشکلات سامنے آتی تھیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ آج کے فیصلے کا جو بنیادی نظریہ ہے وہ یہ کہ سپریم کورٹ کے پروسیجر کے حوالے سے پارلیمنٹ کی بالادستی کو قبول کیا گیا ہے۔
قانونی ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ کیونکہ فل کورٹ میں شامل آٹھ ججز نے قانون کے ماضی سے اطلاق کے سیکشن کو کالعدم قرار دے دیا ہے اس لیے سابق وزیراعظم نواز شریف اور جہانگیر ترین جنہیں از خود نوٹس کے تحت نااہل قرار دیا گیا تھا وہ بھی اس فیصلے کے خلاف اپیل دائر نہیں کر سکیں گے۔
تاہم، نجی ٹی وی وابستہ صحافی اجمل جامی کا کہنا ہے کہ ’میاں صاحب اور ترین صاحب کا معاملہ ایک بار پھر عدالت ہی جائے گا‘۔
اجمل جامی نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ”ایکس“ پر لکھا کہ ’آج کے فیصلے میں تو نواز شریف اور ترین صاحب کو تاحیات نااہلی کے خلاف اپیل کا حق نہیں ملا لیکن لیگی قانون دان سمجھتے ہیں کہ الیکشن ایکٹ میں چونکہ نااہلی کی مدت پانچ سال مقرر کر دی گئی لہذا معاملہ ختم ہوا۔‘
اجمل جامی نے مزید لکھا کہ ’اس کے برعکس دیگر ماہرین یہ سمجھتے ہیں کہ (تاحیات نااہلی کی فیصلے میں) سپریم کورٹ نے آئین کی تشریح کی، اس تشریح پر سادہ اکثریت سے بنا الیکشن ایکٹ فوقیت نہیں رکھتا اور اس کا اطلاق آنے والی نااہلیوں پر ہوگا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’کچھ ماہرین اس کے جواب میں یہ اہم سوال اٹھاتے ہیں کہ کیا سپریم کورٹ کی اس بابت کی گئی تشریح آئین بن جائے گی؟‘
اجمل جامی کے مطابق ’گویا میاں صاحب اور ترین صاحب کا معاملہ ایک بار پھر عدالت ہی جائے گا تاکہ یہ طے ہوسکے کہ کیا الیکشن ایکٹ ان پر نافذ ہوتا ہے یا عدالتی تشریح سے ہوئی تاحیات نااہلی‘۔
ماہر قانون جسٹس (ر) شائق عثمانی نے آج نیوز کے پروگرام ”فیصلہ آپ کا“ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بظاہر یہ کہنا صحیح ہے کہ ماضی کے فیصلوں پر پریکٹس اینڈ پروسیجر کا اطلاق نہیں ہوگا تو نواز شریف اور جہانگیر ترین کی سزا معطلی کے معاملے پر ان کو کوئی ریلیف نہیں ملے گا۔ لیکن جس طریقے سے یہ فیصلہ دیا گیا ہے اس میں ان کے پاس موقع ہوگا کہ نظر ثانی کی اپیل دائر کریں اور کہیں کہ ان کے ساتھ ناانصافی ہو رہی ہے، اور آئین کے آرٹیکل 25 کے تحت کہہ سکتے ہیں کہ نانصافی ہوئی ہے، اگر یہ ریلیف دوسروں کو مل سکتا ہے تو ان کو کیوں نہیں مل سکتا۔ ہو سکتا ہے ان کو اس پوائنٹ پر کچھ ایڈوانٹیج مل جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ جو ماضی کے کیسز کا معاملہ ہوتا ہے یہ ہمیشہ متنازع ہوتا ہے، اس پر لوگ ہمیشہ کہتے ہیں کہ اگر اُن پر اطلاق نہیں ہوتا تو ہم پر کیوں گا، تو یہ امتیازی سلوک کی بات ہے اور آئین امتیازی سلوک کی اجازت نہیں دیتا۔
شائق عثمانی نے کہا کہ یہ جو فیصلہ آیا ہے اس کے بعد میرے خیال میں آئندہ 184/3 کے کیسز سرے سے ہوں گے ہی نہیں۔ ابھی تک یہ ہورہا تھا کہ چیف جسٹس صاحب اپنی مرضی سے کوئی چیز اٹھا لیتے تھے اور اس پر ایکشن لیتے تھے، تو اب 184/3 کا اطلاق کم سے کم ہوتا جائے گا۔ عام طور سے سیاسی معاملات میں جو 184/3 کی مداخلت ہوتی تھی وہ ختم ہوجائے گی۔