خطے میں افغان مہاجرین کا مسئلہ اس وقت انتہائی اہم بنا ہوا ہے۔ میڈیا کے تمام عالمی ادارے اور انسانی حقوق کی تنظیمیں افغان مہاجرین کے حق میں تقریبا روزانہ اسٹوریز چلا رہے ہیں۔ اسی مسئلے پر اقوام متحدہ سے جاری ہونے والے بیان میں عالمی ادارے نے افغان مہاجرین کی وطن واپسی کی مخالفت نہیں کی ہے بلکہ فقط یہ کہا ہے کہ افغان مہاجرین کو ”زبردستی“ اپنے ملک نہ بھیجا جائے۔
یو این ریفوجی کنوینشن (جنیوا) 1951ء ، ریفوجی پروٹوکول 1967ء (جس میں ریفوجی ، کی تشریج کی گئی ہے یا مہاجرین کے حقوق کے تحفظ ، قانونی ذمہ داریوں کی بات واضح کی گئی ہے) پاکستان اس حوالے سے کسی بھی عالمی کنوینشن کا دستخط کنندہ نہیں۔ لہٰذا پاکستان پر یہ ذمہ داری بھی نہیں کہ مہاجرین کے بارے عالمی قوانین پر عمل کرنے کا پابند ہو۔ پاکستان اس بات کا پابند بھی نہیں کہ وہ اپنی سرزمین پر عالمی قوانین کے تحت مہاجرین کواپنے پاس ضرور اورہر حال میں رکھے۔ اس ضمن میں اقوام متحدہ پاکستان کو مجبور نہیں کر سکتا۔
پاکستان اس وقت غیرقانونی تارکین وطن کے مسئلے سے دوچار کیوں ہے؟ اس کی بڑی وجہ پاکستان میں غیرقانونی تارکین وطن کے بارے میں کوئی ایک مربوط پالیسی موجود نہ ہونا ہے۔ پاکستان میں ایسا کوئی قانون بھی نہیں جو لفظ مہاجرین یا غیرقانونی تارکین وطن کی تشریح کر سکے، یا ان کے حقوق کے حوالے سے دو ٹوک بات کی گئی ہو۔
دیگر ممالک سے پاکستان میں آنے والوں کے داخلے اور رہنے کے حوالے سے فارینرز ایکٹ 1946ء، نیچرلائیزیشن ایکٹ 1926، پاکستان سٹیزن ایکٹ 1951ء اور سٹیزن شپ رولز 1952ء کا سہارا ہی لیا جاتا رہا ہے۔ لیکن ان میں یہ مکمل طور پر واضح نہیں کہ کون غیرملکی شہری ہے اور کون مہاجر، اور وہ کتنا عرصہ ملک میں رہ سکتا ہے یا اس کا شہری بن سکتا ہے۔ لیکن 2021ء میں پاکستان نے یو این ایچ آر کی جانب سے مہاجرین کیلئے طے کئے گئے اصولوں کو اپنی پالیسی میں کچھ جگہ دی۔
نیچرلائیزیشن ایکٹ پاکستان میں پیدا ہونے والے بچوں کو پاکستانی شہریت کا حق دیتا ہے لیکن اس میں افغان مہاجرین شامل نہیں۔ لہذا جو یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ 40 سال گذرجانے کے باوجود وہ پاکستانی شہری کیوں نہیں بن سکے ہیں؟ یا افغان مہاجرین کے بچے یہاں پیدا ہوئے ان کوشہریت دی جائے۔ اس بنیاد پر جن افغان مہاجرین نے پاکستانی شہریت کیلئے روجوع کیا، انتظامی یا عدالتی طور پر ایسی تمام درخواستیں مسترد کردی گئیں۔
1980ء میں پاکستان میں پہلی بار افغان مہاجرین کے سیلاب کو مدنظر رکھتے ہوئے مرکزی حکومت نے منسٹری آف اسٹیٹس اینڈ فرنٹیئر ریجنس (سیفرون) تشکیل دی۔ جس کے تحت چاروں صوبوں میں چیف کمشنرافغان رفیوجیز تعینات کیئے گئے۔اس کا مقصد کام افغان مہاجرین کی مدد کیلئے کام کرنے والے داروں کو ترتیب سے کام کرنے میں مدد دینا تھا۔
جب پہلی بار پاکستان میں افغانوں کو مہاجرین کے طور پر رجسٹریشن کی شروعات ہوئی، تو اس کیلئے (غیراعلانیہ) بنیادی شرط یہ تھی کہ ان کا تعلق ان سات مجاہدین گروپس میں سے ہونا ضروری ہے جوافغانستان میں سوویت یونین کے خلاف لڑنے میں مشغول رہے ہوں۔ ان افغان مجاہدین کو پاکستان کی حمایت حاصل تھی۔ اس کی بنیادی وجہ سوویت یونین کے خلاف لڑنے والے مجاہدین کے سات گروپس کو افرادی قوت فراہم کی جا سکے۔
لیکن جیسے ہی 1989ء میں سوویت یونین کا افغانستان سے انخلاء ہوا، پاکستان نے افغان مہاجرین کی رجسٹریشن روک دی۔ 1992ء میں افغان مہاجرین کے انخلاء کا سلسلہ شروع کردیا گیا۔ افغان مہاجرین کیمپس بند کردیئے گئے۔
یہ پہلی بار نہیں کہ افغان مہاجرین کو اپنے وطن واپس جانے کیلئے کہا جا رہا ہو۔ پاکستان نے 30 لاکھ سے زائد افغان شہریوں کو چالیس سال سے زائد عرصہ تک میزبانی کی ہے۔ یہ پہلی بار نہیں کہ افغان مہاجرین سے اپنے وطن واپسی کیلئے کہا گیا ہو۔ اس وقت جب افغانستان میں مجاہدین، جو بعد میں طالبان بنے، کی حکومت ہے۔
اس ملک میں کوئی جنگی صورتحال نہیں۔ چالیس سالوں کے بعد بھی اگرافغان مہاجرین کو اپنے وطن واپس جانے کا کہا جا رہا ہے تو ہر طرف سے ”انسانی حقوق“ کی آوازیں آنا شروع ہوجاتیں ہیں۔ پاکستان خود اس وقت مالی طور پرشخت مشکلات کا سامنا کر رہا ہے۔ اتنی بڑی تعداد میں کسی دوسرے ملک کے لوگوں کی مہمانداری کرنا آسان کام نہیں۔
انٹرنیشنل آرگنائیزیشن فار مائیگریشن کی رپورٹ کے مطابق 28 لاکھ چالیس لاکھ افغان مہاجرین موجود ہیں۔2017ء میں یو این سی ایچ آر کے تعاون سے 8 لاکھ چالیس ہزاو افغانوں کو افغان سٹیزنشپ کارڈ بنا کر دیئے گئے۔
اس سے قبل 2016ء کے دوران دو لاکھ افغان مہاجرین کو وطن واپس بھیجا گیا تھا۔ کیونکہ 2002ء میں پاکستان نے یواین ایچ سی آر کے ساتھ ایک معاہدہ ہوا جس کے تحت افغان مہاجرین کو سکون کے ساتھ واپس اپنے وطن روانہ کیا جائے۔ عالمی اداروں کے مطابق پاکستان میں 7 لاکھ پچاس ہزار غیررجسٹرڈ افغان مہاجرین موجود ہیں۔
جون 2016ء میں ہی عالمی اداروں نے وطن واپس جانے والے ہر افغان مہاجرخاندان کو 400 ڈالر ادا کرنے کی پیشکش کی، اور کئی خاندانوں کو واپس بھیجا لیکن یو این ایچ سی آر نے دسمبر 2016ء کو افغان خاندانوں کو وطن واپس بھیجنے کیلئے 400 ڈالر رقم دینے کا پروگرام بند کردیا۔ کیونکہ یہ باتیں سامنے آئیں کہ کئی خاندانوں نے 400 ڈالر لیئے، افغانستان میں داخل ہوئے اور چند ماہ کے بعد پھر واپس آگئے۔
پاکستان نے افغان مہاجرین کو دسمبر 2017 کی حتمی تاریخ بھی دی تھی کہ وہ اس عرصے کے دوران اپنے وطن واپس چلے جائیں۔ باوجود اقوام متحدہ کے ادارے کی مالی مدد اور بار بار گذارش کرنے کے افغان مہاجرین وطن واپس جانے کو تیار نہیں۔ لیکن دنیا پاکستان پر دبائو ڈالے ہوئے ہے کہ افغان مہاجرین کو وطن واپس نہ بھیجیں۔
دوسری طرف وہی قوتیں جن میں یورپی یونین بھی شامل پے، افغانوں کو سیاسی پناہ دینے سے انکار کردیا تھا۔ ریکارڈ کے مطابق کم از کم تین لاکھ پچاس ہزار افغانوں نے یورپ کے مختلف ممالک میں سیاسی پناہ کی درخواستیں دی تھیں لیکن ان کی وہ درخواستیں رد کردی گئیں تھی۔
امیر، خوشحال ممالک اپنے ملک کو محفوظ رکھ کر پاکستان جیسے غریب ملک پر دبائوڈالا جا رہا ہے کہ افغان مہاجرین کوواپس نہ بھیجا جائے۔ پاکستان میں افغان مہاجرین کی واپسی کی مخالفت افغان قومپرست جماعتیں زیادہ کر رہی ہیں جن میں دائیں اور بائیں بازو کی جماعتیں بھی شامل ہیں۔
عالمی قوتوں کو پاکستان کی معاشی صورتحال، حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے، فقط افغان مہاجرین کی نہیں پاکستان کے عوام کے مسائل پربھی ہمدردی سے غور کرکے، افغان مہاجریں کو احترام سے اپنے وطن جانے میں پاکستان کی مددکریں۔