پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سابق رہنما عثمان ڈار کے طویل عرصے غائب رہنے کے بعد اچانک ایک انٹرویو میں پی ٹی آئی سے علیحدگی کے اعلان اور انکشافات کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما خواجہ آصف نے کہا کہ ’جس طرح انہوں (عثمان ڈار) نے اعتماد سے ٹی وی پر آکر بات کی، میرا نہیں خیال کے کسی دباؤ میں آکر کی ہیں‘۔
آج نیوز کے پروگرام ”فیصلہ آپ کا“ میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے خواجہ آصف نے کہا کہ عثمان ڈار نے ’کسی اسٹیج پر گرفتاری کی بات نہیں کی‘، انہوں نے کہا کہ میں چار مہینے سوچ رہا تھا اور دیکھ رہا تھا۔
خواجہ آصف نے بتایا کہ 2001 یا 2002 میں عثمان ڈار صاحب اپنے والد نے ساتھ میرے گھر آئے تھے، یہ کوئی چوبیس پچیس سال پرانی بات ہے، یہ میرا ان سے پہلا تعارف تھا، فرخ حفیظ صاحب جو میرے اور ان کے مشترکہ واقف ہیں وہ ان کو لے کر آئے تھے، ان کے والد نے کہا تھا کہ میرے بیٹے کو ن لیگ کے ٹکٹ پر الیکشن لڑواؤ، میں نے ان کو آفر بھی کی لیکن یہ کہتے رہے کہ شہر سے لڑواؤ، انہوں نے اس حلقے سے ٹکٹ اپلائی کیا تھا جہاں پر ان کی فیکٹری ہے، اس وقت اس حلقے کا نمبر تھا 104، انہوں نے ایم این اے کیلئے اپلائی کیا ہوا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ اس سے قبل جب میں قید ہوا تو ڈار صاحب نے ہی میرے خلاف درخواست دائر کی تھی کہ منی لانڈرنگ کرتا ہے، اس کے پاس اقامہ ہے، اس طرح کے 18، 19 الزامات تھے، نیب اور سپریم کورٹ سے اللہ تعالیٰ نے مجھے سرخرو کیا، ان کے والد صاحب نے اُس وقت بھی درخواستیں نیب میں دیں، وہ لیاقت کریم نامی شخص کو درخواست دیتے تھے اور وہ جاکر نیب میں جمع کراتے تھے، اس وقت بھی میں چھ مہینے قید رہا اس بار بھی چھ مہینے قید رہا، اس وقت درخواست اُن کے والد صاحب نے دی اس بار عثمان ڈارصاحب نے دی۔
خواجہ آصف کے مطابق جب یہ ٹکٹ لینے آئے تو مجھے اٹھا کر کچن میں لے گئے اور اپنے والد کے متعلق کہا کہ انہوں نے غلط کیا، آپ مجھ پر ہاتھ رکھیں، مجھے بیٹا بنائیں میں سیاست میں آپ کا بازو بنوں گا، اس طرح کی دوچار اور باتیں کیں۔
خواجہ آصف نے کہا کہ انہوں نے لندن میں ایون فیلڈ اپارٹمنسٹس میں شہباز شریف صاحب کے پاس مجھے پیش کرایا، شہباز شریف نے کہا کہ ان کے ساتھ کچھ کرلو، میں نے کہا آفر کی ہے لیکن شہر سے نہیں کرسکتا، شیخ اعجاز صاحب قائد ہیں انہوں نے مجھے کہا ہوا ہے کہ میرے امیدوار کو تم نے ٹکٹ دلوانا ہے۔ اس وقت میاں نواز شریف سعودی عرب میں تھے، یہ سعودی عرب بھی گئے، ن لیگ میں شمولیت کیلئے یہ بڑے متحرک رہے۔ اس کے بعد یہ جنرل مشرف کے پاس چلے گئے، پھر ق لیگ میں چلے گئے، اس کے بعد تحریک انصاف میں آگئے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ میرے عزیز ہیں، رشتہ داری ہے، محلہ داری ہے، ان کا اور میرا گھر پیدل دو تین منٹ کے فاصلے پر ہے، ان کی والدہ کے گھر کی میرے گھر سے آدھے منٹ کی واک بھی نہیں ہے۔
عثمان ڈار کی والدہ کی جانب سے جاری بیان کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ’مائیں ساری محترم ہوتی ہیں، میں ان کا احترام کرتا ہوں، بڑی بہن کی جگہ ہیں، میں اس کا قطعی طور پر کوئی جواب نہیں دینا چاہتا‘۔
ان کا کہنا تھا کہ عثمان ڈار نے بڑے سنگین الزامات اپنے قائد پر لگائے ہیں، نو مئی واقعے کا جن واشگاف الفاظ میں ڈار صاحب نے ذکر کیا ہے اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ایک شخص نے اپنے اقتدار کیلئے اور اقتدار میں واپس آںے کیلئے وہ جرائم کیے جو کسی سیاستدان یا دیگر نے سوچا تک بھی نہیں تھا کہ ہم فوج کے اندر بغاوت کروانے کی کوشش کریں گے، آرمی چیف کو ہٹوانے کی باتیں انہوں نے کیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ بڑی تشویشناک باتیں ہیں جو انہوں نے کی ہیں، یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے، پرویز خٹک، فیاض الحسن چوہان، علی زیدی، عمران اسماعیل اس طرح کے بیانات دے چکے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’عمران خان نے تمام تر جو اقدامات کیے ہیں ان میں کسی نہ کسی اسٹیج پر اسٹبلشمنٹ کی طرف سے ہمدردی ان کے ساتھ رہی ہے۔ حمزہ کی جو ریموول تھی، چوہدری پرویز الہیٰ کا راتوں رات پلٹ جانا، یہ ساری باتیں کسی نہ کسی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ یہ نارمل نہیں تھا‘۔
خواجہ آصف نے کہا کہ ’اس وقت میرا خیال ہے اسٹبلشمنٹ ہر طرف سے کھیل رہی تھی۔‘
لیگی رہنما نے کہا کہ آئین کی نئی تشریح ہوئی اور اس کے نتیجے میں حمزہ کو جانا پڑا، اس کے پیچھے پوری پوری کسشش کی گئی کہ کسی طرح جو حکومت آئی ہوئی ہے وہ مکمل طور پر منحصر رہے اور اس کی باگ ڈور اسٹبلشمنٹ کے ہاتھ میں رہے، ’یہ سارا جال اور ساری کہانی اکتوبر 2022 میں بننی شروع ہوئی تھی، جب ڈی جی آئی ایس آئی کی اپوائنٹمنٹ پر جھگڑا شروع ہوا تھا، ٹارگٹ سب کا نومبر 2022 تھا جس میں نئے آرمی چیف کی اپوائنمنٹ تھی، اکتوبر 2021 میں یہ سلسلہ شروع ہوگیا تھا جب ان کے آپس میں اختلافات شروع ہوگئے، کوئی اصولی اختلافات نہیں تھے صرف یہی تھے کہ عمران خان صاحب چاہتے تھے کہ وہ اپنا بندہ اپوائنٹ کریں، اور وہ جنرل فیض کو اپوائنٹ کرنا چاہتے تھے‘۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت جو جھگڑا شروع ہوا وہ پھیلتا گیا اور عدم اعتماد کے ووٹ پر اختتام پذیر ہوا۔ لیکن اس کے بعد بھی یہ سلسلہ رکا نہیں ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ عارف علوی صاحب نے جو عمران خان کی جنرل باجوہ سے چار گھنٹے ملاقات کروائی اس کی کہانی بھی باہر آگئی ہے، جس میں تاحیات ایکسٹینشن کی آفر کی گئی تھی۔
جنرل باجوہ مارشل لاء لگانا چاہتے تھے؟ اس سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’میں اس پر قطعی حتمی بات نہیں کرسکتا، لیکن یہ ہے جس طرح ڈار صاحب نے کل کہا ہے کہ جنرل عاصم کا راستہ روکنا اور ان کے خلاف کوئی محاذ تیار کرنا وہ بات درست ہے‘۔
عثمان ڈار کی عمران خان کو اسٹبلشمنٹ کے اندر سے سپورٹ حاصل ہونے والے بیان پر انہوں نے کہا کہ ’کوئی نہ کوئی بندے ضرور ان کے کانٹیکٹ میں ہوں گے‘۔ مجھے اس کا حتمی علم نہیں لیکن ان کی بات سے لگتا ہے کہ کوئی نہ کوئی بات تھی کہ آپ یہ حالات پیدا کریں اس میں کوئی نہ کوئی ممکنات ہوسکتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ نئے آرمی چیف کیلئے جو فہرست گئی تھی جنرل عاصم اس میں بلامقابلہ نمبر ون تھے، اس میں قطعی طور پر کوئی اعتراض نہیں تھا۔
نواز شریف کی واپسی کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اب سے لے کر جنوری تک چار مہینے ہیں، ان چار مہینوں میں بہت سی قیاس آرائیاں دم توڑیں گی، چیزیں صاف اور حتمی ہوجائیں گے، میاں صاحب 21 اکتوبر کو 100 فیصدی آرہے ہیں۔
خواجہ آصف نے کہا کہ اس وقت لوگوں کو مہنگائی کی آگ سے بچانے کا بیانیہ چلے گا، اس کا یہ مطلب نہیں کہ باقی بیانیوں سے دستبردار ہوجائیں۔
انہوں نے کہا کہ سب سے پہلے ووٹ کو عزت دو کا بیانیہ ہے، جس دن الیکشن کی تاریخ ہوگی وہ ووٹ کے عزت کا دن ہوگا، انتخابات 2018 کی طرح نہیں ہوں گے شفاف ہوں گے تو ووٹ کو عزت دو کا بیانیہ مکمل ہوجائے گا۔
احتساب کے بیانے پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ احتساب کے دو طریقے ہیں، یا تو آپ ایک نئی شروعات کرلیں ، جو کچھ ماضی میں ہوا ’احتساب سے مراد ہے کہ جو الیکشن مینوپولیٹ ہوئے، جس طرح 2018 کا ہوا ہے، اس میں مختلف کرداروں کے اسٹبلشمنٹ کے کرداروں کے عدلیہ کے کرداروں کے نام لیے جاتے ہیں‘، نواز شریف کو اپیل کا حق نہیں دیا گیا، ان کی بیٹی اور رشتہ داروں پر کیسز بنائے گئے، انہوں نے ہر مشکل حال میں وطن واپس آںے کی کوشش کی۔ جو کچھ ہوا اس کو قومی سطح پر اعتراف کیا جائے کہ یہ غلط ہوا تھا، اس کے بعد سفر آگے جاری رکھا جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ ساری چیزیں ہونی چاہئیں لیکن اپنے وقت پر، پہلے عوام کو مہنگائی سے نجات دلانی ہے، پھر ترقی کا سفر دوبارہ شروع کرنا ہے، پھر جو پارلیمنٹ آئے گی فیصلہ اس کو کرنا ہے کہ احتساب کیسے ہوگا۔
خوجہ آصف نے کہا کہ یہ جو لوگ ملک میں دہشتگردی کر رہے ہیں اس کے تانے بانے پی ٹی آئی سے ملتے ہیں، ہزاروں لوگ واپس لائے گئے سوات کے قصائی اور دیگر کو معافیاں دی گئیں۔ وہ لوگ ان کے ہمدرد ہیں، پی ٹی آئی کا ان پر احسان ہے، عمران خان الیکشن میں ان کو استعمال کرسکتے ہیں۔