جمعیت علمائے اسلام نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیخلاف درخواستیں مسترد کرنے کے لئے سپریم کورٹ میں جواب جمع کرادیا ہے اور موقف اپنایا کہ پارلیمنٹ ہی قانون بنانے اورترمیم کرنے کا فورم ہے۔
جمعیت علمائے اسلام نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس میں جواب جمع کرادیا ہے، جس میں استدعا کی ہے کہ ایکٹ کے خلاف درخواستیں مسترد کی جائیں۔
جمعیت علمائے اسلام نے اپنے جواب میں مؤقف پیش کیا ہے کہ عدالتی فیصلوں کے مطابق مذکورہ ایکٹ آئینی اورقانون سے متصادم نہیں ہے، پارلیمنٹ ہی قانون بنانے اورترمیم کرنے کا فورم ہے، آئین پاکستان اختیارات کسی ایک فرد کوتفویض نہیں کرتا۔
جمعیت علمائے اسلام نے اپنے جواب میں کہا کہ درخواست گزاروں کا یہ موقف بے بنیاد ہے کہ مذکورہ قانون آرٹیکل 184(3) کے متصادم ہے مزکورہ قانون سے عدالت عظمیٰ کو حاصل اختیارات میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی۔
وفاقی حکومت کی درخواستیں مسترد کرنے کی استدعا
اس سے قبل وفاقی حکومت نے بھی 18 ستمبر کو سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف دائر درخواستیں مسترد کرنے کی استدعا کی تھی۔
وفاقی حکومت نے مؤقف پیش کرتے ہوئے استدعا کی کہ پارلیمنٹ کے قانون کیخلاف درخواستیں ناقابل سماعت ہیں، پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیخلاف درخواستیں خارج کی جائے۔
وفاقی حکومت نے تحریری جواب بھی سپریم کورٹ میں جمع کرایا، جس میں کہا گیا کہ پارلیمنٹ آئین کے آرٹیکل191 کے نیچے قانون سازی کرسکتی ہے، آئین کا آرٹیکل 191 پارلیمنٹ کو قانون بنانے سے نہیں روکتا، پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ سے عدلیہ کی آزادی متاثر نہیں ہوتی۔
25 ستمبر کو ق لیگ کی جانب سے بھی سپریم کورٹ میں پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواست کیس میں جواب جمع کرایا گیا تھا۔
سپریم کورٹ میں جمع کروائے گٸے ق لیگ کے تحریری جواب میں کہا گیا کہ پارلیمنٹ کا بنا قانون پریکٹس اینڈ پروسیجر آئینی ہے، جس سے سپریم کورٹ عدلیہ کی آزادی کو فروغ ملا ہے۔
ق لیگ کے تحریری جواب میں کہا گیا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجرل قانون عدلیہ کے اختیارکے خلاف نہیں، اس قانون میں چیف جسٹس پاکستان کے اختیار کو دو سینئر ججز کے ساتھ شیئر کیا گیا ہے۔
ق لیگ نے اپنے جواب میں عدالت سے استدعا کی ہے کہ قانون سے عدلیہ کے اختیار میں کمی نہیں اضافہ ہوا پریکٹس اینڈ پروسیجرل قانون کیخلاف درخواستوں کو مسترد کیا جائے۔