مارچ میں احمد آباد کے اسٹیڈیم میں بھارت اور آسٹریلیا کے درمیان ٹیسٹ میچ سے قبل اسٹیڈیم کا نام نریندر مودی کے اعزاز میں رکھا گیا، بھارت اور آسٹریلیا کرکٹ کے 75 سال مکمل ہونے پر میچ سے پہلے کی تقریب منعقد ہوئی جس میں مودی اور ان کے آسٹریلوی ہم منصب نے شرکت کی۔
ال جزیرہ کے مطابق یہ سیاست کی ایک جھلک تھی جو ہندوستان کی میزبانی میں 2023 انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) ورلڈ کپ میں ممکنہ طور پر کام کرے گی۔
اپنی ایک رپورٹ میں ال جزیرہ نے لکھا کہ اسٹیڈیم کے نام رکھنے سے لیکر مقامات کے انتخاب، پاکستان اور مسلمانوں کو زیادہ وسیع پیمانے پر بدنام کرنے تک، کچھ مبصرین کا کہنا ہے کہ مودی کی ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) تیسری مدت کے لئے ٹورنامنٹ کو لانچ پیڈ کے طور پر استعمال کر رہی ہے۔
کچھ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر بھارت ورلڈ کپ جیت جاتا ہے تو مودی جون 2024 میں بی جے پی کی میعاد ختم ہونے سے چھ یا اس سے زیادہ مہینے قبل ہی انتخابات کا اعلان کر سکتے ہیں۔
ناول نگار مکل کیسون نے کہا کہ یہ ورلڈ کپ پہلے سے کہیں زیادہ سیاسی ہے جب کہ گزشتہ ہفتے دی ہندو اخبار میں کالم نگار اور مصنف سریش مینن نے لکھا تھا کہ ورلڈ کپ ایک توسیعی انتخابی مہم کے طور پر کام کرے گا۔
بی سی سی آئی اور ورلڈ کپ کے انعقاد میں بی جے پی کا براہ راست تعلق اس کے سکریٹری جے شاہ کے ذریعے ہے، جو بھارت کے طاقتور وزیر داخلہ اور مودی کے دائیں ہاتھ امیت شاہ کے بیٹے ہیں۔
سابق ہندوستانی کرکٹر اور ورلڈ کپ فاتح کیرتی آزاد، جو پارٹی چھوڑ کر اپوزیشن کانگریس میں شامل ہونے سے پہلے بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ بھی رہ چکے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ کرکٹ انتظامیہ میں ایک سیاست دان کے ہونے میں کوئی حرج نہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ وہ کھیل کو اپنے وسائل کے لیے ایک آلے کے طور پر استعمال کرنا شروع کر دیتے ہیں۔
آئی سی سی ورلڈ کپ کا آفیشل آرگنائزر ہے اور بی سی سی آئی نے ٹورنامنٹ ڈائریکٹر کا کوئی باضابطہ اعلان نہیں کیا مگر جے شاہ اس ایونٹ کی سب سے بڑی آواز، چہرہ اور ترجمان رہے ہیں۔
دریں اثنا، بھارتی کرکٹ اور معاصر سیاست کے امتزاج کا سب سے زیادہ اظہار مودی کے آبائی ریاست گجرات کے دارالحکومت احمد آباد میں دنیا کے سب سے بڑے کرکٹ اسٹیڈیم کی تعمیر کے ذریعے ہوا ہے۔
ورلڈ کپ میں مودی اسٹیڈیم اپنے افتتاحی میچ اور فائنل کے ساتھ ساتھ تین دیگر میچوں کی میزبانی کرے گا، جس میں 14 اکتوبر کو کرکٹ کا سب سے بڑا میچ بھارت بمقابلہ پاکستان بھی شامل ہے۔
مودی 2001 سے 2014 تک گجرات کے وزیر اعلیٰ رہے اور انہوں نے انسانی حقوق کی تنظیموں کے ان الزامات کی تردید کی ہے کہ انہوں نے ریاست میں 2002 کے فسادات کی خاموش حمایت کی تھی جس میں درجنوں مسلمان مارے گئے تھے۔
مودی کے دور میں بھارتی مسلمانوں کو تیزی سے بدنام کیا جا رہا ہے اور ان کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جا رہا ہے۔
ایک میگزین کا کہنا ہے کہ بی جے پی جیسی بھارتی حکومت کبھی نہیں رہی جو نہ صرف پاکستان مخالف ہے بلکہ مسلم مخالف بھی ہے۔
بھارتی حکومت نے پاکستانی ٹیم کو ویزا جاری کرنے میں بھی تاخیر کی جس کی وجہ سے انہیں دبئی میں دو روزہ تربیتی کیمپ منسوخ کرنا پڑا۔ اس کے بعد 29 ستمبر کو حیدرآباد میں ان کا پہلا وارم اپ میچ بند دروازوں کے پیچھے منعقد ہوا۔
انڈین ایکسپریس کے مطابق حیدرآباد پولیس 28 ستمبر کو اختتام پذیر ہونے والے دو تہواروں کے انعقاد کی وجہ سے سیکورٹی فراہم کرنے میں ناکام رہی۔
مودی خود کرکٹ ورلڈ کپ کے لیے کسی اشتہار یا مارکیٹنگ میں شامل نہیں لیکن ان کے سوشل میڈیا فیڈ میں مسلسل کرکٹ کو دکھایا جاتا ہے اور توقع کی جا رہی ہے کہ وہ بھارت اور پاکستان کے میچ میں شرکت کریں گے۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق کرک انفو کے کنسلٹنٹ ایڈیٹر جے آدتیہ گپتا نے کہا کہ اس طرح کے سیاسی مفادات کسی ٹورنامنٹ پر لدے ہوئے ہوں تو ہمیشہ نقصانات کا امکان رہتا ہے۔
جے آدتیہ نے کہا کہ حیرت ہے کہ اگر پاکستان احمد آباد میں یہ میچ جیت گیا تو کیا ہوگا۔