سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے اجلاس میں وزارتِ خزانہ نے انکشاف کیا ہے کہ شرح سود میں ایک فیصد اضافے سے قرض کے حجم میں 600 ارب روپے کا اضافہ ہو جاتا ہے۔
سینیٹر سلیم مانڈوی والا کی زیر صدارت سینیٹ کی قائمہ کمیٹی خزانہ کا اجلاس ہوا جس میں ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا کہ مرکزی بینک کے پاس مہنگائی کنٹرول کرنے کیلئے پالیسی ریٹ کے علاوہ کوئی اور ٹول نہیں ہے، پالیسی ریٹ بڑھنے سے کاروباری اداروں کے ڈیفالٹ کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے، تاہم ابھی تک ایسی صورت حال نہیں ہے اور امید ہے کہ معیشت بحالی تیز تر ہو گی۔
چیئرمین قائمہ کمیٹی سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے 26 ٹریلین کے بینک ڈیپازٹس بڑھنے پر تشویش کا اظہارکیا، ان کا کہنا تھا کہ یہ پیسہ اسٹاک مارکیٹ یا کاروبار میں جاتا تو زیادہ بہتر ہوتا۔
ڈپٹی گورنر سٹیٹ بینک نے کمیٹی کو بتایا کہ سیاسی طور ایکسپوزڈ پرسنز کیلئے اسٹیٹ بینک سمیت ہر بینک میں ایک فوکل پرسن کی تعیناتی کی گئی ہے۔
ڈپٹی گورنر نے بتایا کہ بینک عالمی قوانین کے تحت سیاسی افراد کی زیادہ چھان بین کرتے ہیں تاکہ ان پر کوئی پابندی نہ لگے۔
ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا شرح سود بڑھانے کی وجہ سے 26 ہزار ارب روپے بینکوں میں ڈیپازٹ ہوئے۔ ڈیپازیڑز پروٹیکشن کارپوریشن کے تحت 94 فیصد ڈیپازیڑز محفوظ ہیں۔
ڈپٹی گورنراسٹیٹ بینک نے قائمہ کمیٹی کو بریفنگ میں بتایا کہ کوئی بینک دیوالیہ ہوجائے، ڈوب جائے یا ناکام ہوجائے تو جمع کرائی رقم کو تحفظ حاصل نہیں، بینکوں میں صرف 5 لاکھ روپے تک کی رقوم کو قانونی تحفظ حاصل ہے۔
ڈپٹی گورنراسٹیٹ بینک نے بتایا کہ 5 لاکھ روپے تک کے ڈیپازٹس رکھنے والے کھاتہ داروں کی شرح 94 فیصد ہے، صرف 6 فیصد اکاؤنٹ ہولڈرز کا بینک بیلنس 5 لاکھ روپے سے زیادہ ہے، 5 لاکھ روپے تک کے اکاؤنٹ ہولڈرز کو ڈیپازٹس پروٹیکشن کارپوریشن کے ذریعے ادائیگی کی جاسکتی ہے، ڈیپازٹس پروٹیکشن کارپوریشن اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا ذیلی ادارہ ہے، یہ ادارہ بینکوں سے ہر سال سبسکرپشن فیس لیتا ہے۔
سینیٹر سعدیہ عباسی نے قانون میں تبدیلی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ اب ایک ٹیکس دہندہ کو سٹیٹ بینک کے افسر سے پوچھ کر اکاؤنٹ کھولنا ہوگا۔
سینیٹر کامل علی آغا نے کہا کہ سیاسی شخصیات کیلئے بینک اکاؤنٹس کھولنا مشکل ہوتا جارہا ہے، رکاوٹ ڈالنے والے افسران و افراد کے خلاف کارروائی کرنا ہوگی۔ اب بینک اتنے منافع بخش ہو گئے ہیں کہ ان کو کسی کی پروا نہیں۔
کامل علی آغا نے کہا کہ شرح سود میں اضافے سے گندم، دالیں، سبزیاں اور گھی کم از کم 30 فیصد مہنگے ہوئے۔
کامل علی آغا نے معاملہ آئی ایم ایف سے اٹھانے کا مطالبہ کیا۔
سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ بینکوں کو اب حکومت کی شکل میں بہترین صارف مل گیا ہے۔ ملک میں کاروبار کرنا مشکل ہو گیا ہے۔
ایڈیشنل سیکرٹری فنانس ڈویژن نے بتایا کہ ایک فیصد پالیسی ریٹ بڑھنے سے حکومت کا قرضہ 600 ارب روپے بڑھ جاتا ہے۔