انگریزی زبان کی ایک کہاوت ہے “.Your son will hold your hand for a little while, but he will hold your heart for a lifetime’’ ، سادہ لفظوں میں سمجھیں تو ایک ماں کے پاس ایسا بیٹا ہونا جو اس کا فخر، اس کے جینے کا مقصد ہو اور اس کے دل کے ہمیشہ بہت قریب ہو۔
سوشل میڈیا پر وائرل اداکارہ ماہرہ خان کی شادی کی تصاویراس کامنہ بولتا ثبوت ہیں جس میں دلہن ہونے کے باوجود ممتا کے جذبات غالب دیکھے جاسکتے ہیں، اسٹیج پربیٹے کو پاس بٹھائے ، اس کے ہمراہ چلتے ماہرہ نے اذلان کا ہاتھ تھام رکھا ہے۔
بیٹے کا ماں کے ساتھ ہم قدم ہونا ماہرہ کی بھرپورمسکراہٹ اس فیصلے کے پیچھے چھپے اعتماد کی عکاس ہے جو انہوں نے رضامندی سے لیا۔
دیکھنے والے یہ تو جانتے ہیں کہ یہ سلیم کریم سے ماہرہ کی دوسری شادی ہے، پہلی بار وہ 200 میں علی عسکری سے اس بندھن میں بندھی تھیں، 2009 میں ان کی زندگیوں میں اذلان آیا اور 2015 میں اس جوڑی نے اپنے راستے الگ کرلیے۔
8 سال بعد دوسری شادی اور نوعمر بیٹے کو اس فیصلے پراعتماد میں لیتے ہوئے تقریب میں اپنے ساتھ ساتھ رکھنا بلاشبہ ایک جرات مندانہ فیصلہ ہے کیونکہ جس معاشرے سے ماہرہ کا تعلق ہے وہاں خواتین کی ’دوسری شادی‘ کو ہی بڑی مشکل سے سند قبولیت بخشی جاتی ہے، کُجا کہ پورے اہتمام کے ساتھ اولاد کو بھی اپنی اس خوشی میں شریک کرنا۔
ماہرہ کی ان تصاویرکو دیکھنے والوں نے بیشتر تبصروں میں نیک خواہشات کا اظہارکیا لیکن کمی ان کی بھی نہیں تھی جو ’طلاق‘ کے بعد اس ’فیری ٹیل ویڈنگ‘ اور بیٹے کی شمولیت پرشدید معترض تھے کیونکہ انہیں یہ بات معیوب لگ رہی تھی کہ اس دھڑلے سے ایسا کون کرسکتا ہے، یہ بات معاشرتی اصولوں کے خلاف ہے۔
انہی تبصروں کو دیکھ کر یاد آیا کہ ستمبر کے وسط میں ایک خبرسُننے کو ملی تھی کہ صادق آباد میں بیٹے نے ماں کو صرف اس لیے قتل کرڈالا کیونکہ اس نے دوسری شادی کرلی تھی اور بیٹے کو اس بات کا رنج تھا۔
تو کیا اعتراض کرنے والوں کیلئے یہ بات باآسانی قابل قبول ہے کہ بیٹا شریعت کے مطابق فیصلہ لینے والی ماں کو جان سے تو مار دے لیکن ’غیرت‘ پر حرف نہ آنے دے ۔ موازنہ کریں تو ایک سوال بنتا ہے کہ کیا مشرقی معاشرے میں وہی ماں سُرخروٹھہرتی ہے جو اپنی زندگی اولاد کے لیے تیاگ دے؟ یا وہ بھی قابل قبول ہیں جو یہ فریضہ بہ احسن نبھاتے ہوئے اپنی خوشیاں بھی مقدم رکھیں۔
طبقاتی تقسیم کے باعٖث ماؤں کو قتل کرنے والے بیٹوں کو شعوردینے میں تو شاید عمر لگ جائے لیکن خوش آئند یہ ہے کہ جس کلاس سے ماہرہ کا تعلق ہے وہاں اب اس ٹیبو (Taboo) کو توڑ دیا گیا ہے۔
ماہرہ سے قبل بھی کئی ایسی مثالیں موجود ہیں جیسے کہ عتیقہ اوڈھو جنہوں نے ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ انہیں دوسری شادی کا مشورہ ان کے بیٹے نے دیا تھا۔
عتیقہ نے 2012 میں سیاستدان اورسماجی رہنما ثمرعلی خان سے تیسری شادی کی تھی اور نکاح کے وقت ان کا نواسہ نانی کی گود میں تھا۔
اسی فہرست میں سائرہ یوسف کا نام بھی آتا ہے جو شہرواز سبزواری سے علیحدگی کے بعد بھی بیٹی نورے کی خاطر ان سے رابطے میں رہتی ہیں۔ حال ہی میں شہروز اور سائرہ شادی سے قبل سائن کی جانے والی فلم ’بےبی لشئیس‘ کی تشہیری تقریبات میں ایک ساتھ نظرآئے تو دیکھنے والوں نے ادھربھی طنزکے کڑے نشترچلاتے ہوئے انہیں مذہب سمیت دیگر پیمانوں پر تولا۔
ماہرہ کی دوسری شادی سے بھی شاید بہت سوں کو حوصلہ ملے کہ اولاد کو تنہا پالنے والی ماؤں کو معاشرے میں نمایاں مقام رکھنے کے باوجود بھی کسی مضبوط سہارے کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ عموماً ہوتا یہی ہے کہ طلاق کے بعد مرد تو باآسانی دوسری شادی کرلیتے ہیں لیکن خواتین ایسا کرنے سے کتراتی ہیں کیونکہ انہیں ڈر ہوتا ہے کہ، ’لوگ کیا کہیں گے‘۔
اس لیے بیٹے کی مکمل رضامندی سے اس نئے رشتے کا آغاز کرنے والی ماہرہ قابل تنقید نہیں قابل تعریف ہیں۔