بھارت نے کینیڈا سے کہا ہے کہ وہ 10 اکتوبر تک اپنے 41 سفارت کاروں کو واپس بلالے۔
وزیراعظم جسٹن ٹروڈو کی جانب سے سکھ رہنما ہردیپ سنگھ نجار کے قتل میں بھارت کے ملوث ہونے کے الزامات کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات انتہائی کشیدہ ہیں۔
کینیڈا کی وزارت خارجہ اور بھارتی حکومت نے اس پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ تاہم اس سے قبل نئی دہلی نے کہا تھا کہ وہ ہر ملک کے سفارت کاروں کی تعداد اور گریڈ میں دوسرے ملک کے مقابلے میں ’برابری‘ چاہتا ہے۔
فنانشل ٹائمز نے کے مطابق بھارت نے دھمکی دی ہے کہ 10 اکتوبرکے بعد باقی رہ جانے والے سفارت کاروں کا سفارتی استثنیٰ منسوخ کردیا جائے گا۔
کینیڈا کے ہائی کمیشن میں بھارت کے مقابلے میں کئی درجن زیادہ سفارت کارموجود ہیں، کیونکہ تقریبا 1.3 ملین کینیڈین شہریوں کے رشتہ داروں کے لیے بڑے قونصلر سیکشن کی ضرورت ہے۔
فنانشل ٹائمز میں شائع رپورٹ کے مطابق بھارت میں کینیڈا کے 62 سفارت کار ہیں اور نئی دہلی کا کہنا ہے کہ وہ ان میں 41 افراد کی کمی کریں۔
اس سے قبل بھارتی وزیر خارجہ سبرامنیم جے شنکر کا کہنا تھا کہ کینیڈا میں ہمارے سفارت کاروں کیخلاف تشدد کی فضا اور ڈرانے دھمکانے والا ماحول تھا جہاں سکھ علیحدگی پسند گروپوں کی موجودگی نے بھارت کو تنگ کررکھا ہے۔
واضح رہے کہ خالصتان کے حامی سکھ رہنماہردیپ سنگھ نجار 18 جون کو کینیڈا کے شہرسرے میں قتل کیے گئے تھے۔ 18 ستمبر کو کینیڈا کی حکومت نے قتل میں بھارت کے ملوث ہونے کا الزام عائد کیا۔
مزید پڑھیے:
بھارت میں کینیڈین شہریوں کیلئے ٹریول ایڈوائزری جاری، محتاط رہنے کی ہدایت
کینیڈا کے الزامات پر بھارت چیخ اٹھا
وزیراعظم جسٹس ٹروڈو کا کہنا تھا کہ کینیڈین انٹیلی جنس نے ہردیپ کی موت اوربھارتی حکومت کے درمیان تعلق کی نشاندہی کی ہے۔معاملہ جی 20 اجلاس میں مودی کے ساتھ اٹھایا تھا۔ کینیڈا کی سرزمین پرشہری کے قتل میں بھارت کا ملوث ہونا ہماری خودمختاری کیخلاف ہے۔
اس کے بعد کینیڈا نے بھارتی سفارتکارپون کماررائے کو ملک بدری کا حکم دیا تھا جس کے متعلق میڈیا رپورٹس میں دعویٰ کیا گیا کہ وہ بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ کے سربراہ بھی ہیں۔
دونوں ممالک میں شدید کشیدگی کے باعث بھارت نے کینیڈا کے شہریوں کیلئے ویزا سروس بھی معطل کررکھی ہے۔