اسرائیل کے مغربی کنارے پر واقع شہر نابلس میں حضرت یوسف علیہ السّلام کے مبینہ مقبرے میں داخل ہونے کی کوشش کرنے والے 5 یہودیوں پر پتھر برس پڑے۔
مذکورہ یہودی حضرت یوسف علیہ السّلام کے مبینہ مقبرے میں غیر قانونی طور پر داخل ہوئے تو مشتعل ہجوم نے ان پر حملہ کردیا، جس کے بعد فلسطینی اتھارٹی کی پولیس کو انہیں بچا کر نکالنا پڑا۔
فلسطینیوں کے پتھراؤ سے ایک اسرائیلی معمولی زخمی ہوا۔
حضرت یوسف علیہ السلام کا یہ مبینہ مقبرہ فلسطینی اتھارٹی کے زیر کنٹرول علاقے میں واقع ہے، جو اسرائیلی شہریوں کی حد سے دور ہے۔
اسرائیلی باقاعدگی سے فوج کی مدد سے حضرت یوسف علیہ السلام کے اس مبینہ مقبرے میں داخل ہونے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ لیکن پیر کو داخل ہونے کی کوشش بنا کسی فوجی مدد کے ہوئی تھی۔
فلسطینی پولیس نے یہودیوں کو ہجوم سے بچا کر قریب موجود اسرائیلی فوج کی چیک پوسٹ کے حوالے کردیا۔
فلسطین کے مقبوضہ مغربی کنارے کے شمالی شہر نابلس میں ایک مقام فلسطینیوں اور صہیونیوں کے درمیان تنازع کا باعث ہے۔ ماضی میں یہ مقام متنازع نہیں تھا مگر گذشتہ 55 سال سے یہ جگہ صہیونیوں کے ساتھ جھگڑے کا باعث ہے۔
غاصب صہیونیوں کا خیال ہے کہ نابلس میں جس جگہ کو وہ ”مقام یوسف“ کے طور پر مقدس جانتے ہیں وہ جلیل القدر پیغمبر حضرت یوسف علیہ السلام کا مزار ہے۔
تاہم فلسطینی اسے ایک بزرگ ”یوسف دویکات“ کے نام سے جانتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ اس جگہ حضرت یوسف علیہ السلام کا مزار نہیں اور اس جگہ پر صہیونیوں کا دعویٰ محض صہیونی استیطانی بیانیے کا حصہ ہے۔
”قبرِ یوسف“ غرب اردن کے شمالی شہر نابلس کے مشرق میں بلاطہ کے مقام پر ہے۔
یہ جگہ فلسطینیوں اور صہیونیوں کے درمیان وجہ نزاع بنی ہوئی ہے اور اس وقت اس کا انتظامی کنٹرول فلسطینی اتھارٹی کے پاس ہے، تاہم سنہ 1967ء کی جنگ میں اسرائیل نے اس جگہ پر قبضہ کرلیا تھا۔
اسرائیلی قبضے کے بعد یہ جگہ یہودی آباد کاروں کا مرکز ہے اور آئے روز آباد کار تلمودی مذہبی رسومات کی ادائیگی کے لیے اس جگہ جمع ہوتے ہیں۔
سنہ 1986ء میں قابض اسرائیلی ریاست نے مقام یوسف میں ایک یہودی مذہبی اسکول قائم کیا جس میں تورات پڑھائی جانے لگی۔
سنہ 1990ء میں قبر یوسف کو ایک فوجی چوکی میں بدل دیا گیا اور اسے یہودی وزارت مذہبی امور کے حوالے کردیا گیا۔
یہودیوں کا مذہبی موقف ہے کہ حضرت یعقوب علیہ السلام کے جسد خاکی کی باقیات مصر سے لا کر نابلس میں بلاطہ کے مقام پر دفن کی گئیں۔ اس حوالے سے یہودی سفر تکوین کا حوالہ دیتے ہیں۔
یہودیوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ حضرت یوسف علیہ السّلام نے بنی اسرائیل کو وصیت کی تھی کہ وہ ان کی باقیات کو شکیم شہر کے مشرق میں لے جائیں اور وہاں انہیں دفن کیا جائے۔ یہ نابلس کا کنعانی شہر ہے۔
یہی وجہ ہے کہ یہ قبر یہودیوں کے لیے عبادت کا مرکز ہے۔
یہودی ہرعبرانی مہینے کے آخر میں مقام یوسف میں داخل ہوتے ہیں اور دو روز تک وہاں قیام کرتے ہیں۔
یہودی نصف شب وہاں آتے ہیں اور اگلے روز طلوع آفتاب کے بعد وہاں سے جاتے ہیں۔
تاہم، مؤرخین یہودیوں کے اس دعوے کی تردید کرتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ نابلس میں موجود قبر 200 سال سے زیادہ پرانی نہیں۔
مؤرخین کا کہنا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السّلام حضرت یوسف علیہ السّلام سے دو سو سال بعد مبعوث ہوئے، ان کی آخری آرام گاہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ مصر میں ہے مگر ان کی قبر کا کوئی پتا نہیں۔
اس کے علاوہ مقام یوسف کے حضرت یوسف علیہ السّلام کا مزار نہ ہونے کی دوسری دلیل یہ ہے کہ یہ قبر ایک مزار میں ہے جو اسلام طرز تعمیر پر بنایا گیا ہے۔
اس کے اوپر ایک گنبد ہے اور ایسا کسی دور میں بعض مسلمان طبقات اپنے مردوں کو دفنانے کے لیے کرتے تھے۔
بعض تاریخی مصادر سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ قبر عثمانی دور خلافت میں بنائی گئی۔
غالب امکان یہ ہے کہ 1904ء میں یہ قبر اور اس پر مزار بنایا گیا۔
یہ قبر ایک بزرگ اور نیک شخص یوسف دویکات کی ہے۔ وہ ایک عالم دین تھے اور دین اسلام کی تعلیمات عام کرتے رہے۔
یوسف دویکات کی وفات کے بعد خلافت عثمانیہ نے تکریم کے طور پر ان کا مزار بنایا۔ بعض صوفیا وہاں عبادت بھی کرتے رہے۔
فلسطینی محکمہ اوقاف میں یہ مزار ایک مسجد کے طور پر درج ہے۔
مرکز اطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے فلسطینی تاریخ کے استاد اور النجاح نیشنل یونیورسٹی کے پروفیسر امین ابو بکر نے بتایا کہ تمام قرائن یہ بتاتے ہیں کہ یہ قبر حضرت یوسف علیہ السّلام کی آخری آرام گاہ نہیں۔ یہ اسلامی وقف جگہ ہے اور اس کا ریکارڈ خلافت عثمانیہ میں بھی ملتا ہے۔ اس لیے یہ یہودیوں کا مذہبی مقام نہیں۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ فلسطین اور بلاد شام میں ایسے ان گنت مقامات موجود ہیں۔ صرف فلسطین میں ایسے 300 تاریخی مقامات ہیں۔ روایات کے مطابق مقام یوسف میں موجود قبر صرف 200 سال پرانی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ سیدنا یوسف علیہ السّلام کے مزار کے عنوان سے مصر میں کئی مقامات ہیں۔
فلسطینی دانشور کا کہنا ہے کہ آخری پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا باقی کسی بھی پیغمبر کی آخری آرام گاہ کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ ان کے ناموں سے جو قبریں موجود ہیں وہ ان کی آخری آرام گاہیں ہونے کا حتمی ثبوت نہیں ہیں۔
امین ابو بکر نے کہا کہ حضرت موسیٰ علیہ السّلام نے حضرت یوسف علیہ السّلام کی وصیت پر ان کی باقیات مصر سے فلسطین منتقل کی تھیں مگر اس کا ٹھوس ثبوت نہیں ملتا اور نہ ہی ان کی قبر کی جگہ کا تعین ممکن ہے۔