سپریم کورٹ آف پاکستان میں پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواستوں پر سماعت آج ہوگی، عدالتی کارروائی براہ راست نشر کیے جانے کا امکان ہے۔
یاد رہے کہ 18 ستمبر کو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں فل کورٹ نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف آئینی درخواستوں پر سماعت 3 اکتوبر تک ملتوی کردی تھی۔
چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں فل کورٹ بینچ آج صبح ساڑھے 9 بجے درخواستوں پر سماعت کرے گا۔
چیف جسٹس نے عہدہ سنبھالنے کے فوری بعد اس کیس کی سماعت کے لیے فل کورٹ تشکیل دینے کا حکم دیا تھا یعنی سپریم کورٹ کے تمام 15 ججز اس کیس کی سماعت کر رہے ہیں۔
منگل کے روز ہونے والی عدالتی کارروائی بھی براہ راست ٹیلی ویژن پر نشر کیے جانے کا امکان ہے، اس حوالے سے پی ٹی وی کو انتظامات مکمل کرنے کی ہدایت کر دی گئی ہے۔
پی ڈی ایم دور میں منظور کیے گئے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف عدالت عظمیٰ میں ایک مقدمہ کئی ماہ سے زیر التوا ہے۔
سابق چیف جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں8 رکنی بینچ نے سپریم کورٹ بارایوسی ایشن کی درخواست حکم امتناع جاری کیا تھا۔ اس کے بعد سماعت غیرمعینہ مدت تک کے لیے ملتوی کردی گئی تھی۔
یہ کیس 15 ستمبر بروز جمعہ کو رجسٹرار آفس کی جانب سے سپریم کورٹ میں 18 ستمبر کو سماعت کے لئے مقرر کیا گیا تھا اور رجسٹرار آفس نے فریقین کو نوٹسز جاری کردیے تھے۔
اس مقدمے کی اہمیت یہ ہے کہ اگر پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ بحال ہوگیا تو اس کے بعد بنائے گئے بینچز پر سوال اٹھادیے جائیں گے۔ جس میں نیب ترامیم کیس کے لیے بنایا گیا بینچ بھی شامل ہے۔
سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کیس سماعت کے دوران جسٹس منصورعلی شاہ نے ریمارکس میں کہا تھا کہ پہلے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کا فیصلہ کیا جائے۔ انہوں نے بار بار فل کورٹ بینچ بنانے کی تجویز بھی دی تاہم سابق چیف جٹس عمر عطا بندیال نے ان دونوں تجاویز پر عمل کرنے کے بجائے اپنے آخری ورکنگ ڈے یعنی ہفتہ 15 ستمبر کو نیب ترامیم پر فیصلہ دے دیا تھا۔
پی ڈی ایم دور حکومت میں بینچز کی تشکیل کے حوالے سے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر کے نام سے ایک قانون منظور کیا گیا تھا جس میں کہا گیا کہ عدالت عظمیٰ کے سامنے کسی وجہ، معاملہ یا اپیل کو چیف جسٹس اور دو سینئر ترین ججز پر مشتمل ایک کمیٹی کے ذریعے تشکیل دیا گیا بینچ سنے گا اور اسے نمٹائے گا، کمیٹی کے فیصلے اکثریت سے کیے جائیں گے۔
عدالت عظمیٰ کے اصل دائرہ اختیار کو استعمال کرنے کے حوالے سے قانون میں کہا گیا کہ آرٹیکل 184 (3) کے استعمال کا کوئی بھی معاملہ پہلے مذکورہ کمیٹی کے سامنے رکھا جائے گا۔
اس حوالے سے کہا گیا کہ اگرکمیٹی یہ مانتی ہے کہ آئین کے حصہ دوم کے باب اول میں درج کسی بھی بنیادی حقوق کے نفاذ کے حوالے سے عوامی اہمیت کا سوال پٹیشن کا حصہ ہے تو وہ ایک بینچ تشکیل دے گی جس میں کم از کم تین ججز شامل ہوں گے، سپریم کورٹ آف پاکستان جس میں اس معاملے کے فیصلے کے لیے کمیٹی کے ارکان بھی شامل ہو سکتے ہیں۔
آرٹیکل 184 (3) کے دائرہ اختیار کا استعمال کرتے ہوئے عدالت عظمیٰ کے بینچ کے کسی بھی فیصلے پر اپیل کے حق کے بارے میں بل میں کہا گیا کہ بینچ کے حکم کے 30 دن کے اندر اپیل سپریم کورٹ کے لارجر بینچ کے پاس جائے گی، اپیل کو 14 دن سے کم مدت کے اندر سماعت کے لیے مقرر کیا جائے گا۔
بل میں قانون کے دیگر پہلوؤں میں بھی تبدیلیاں تجویز کی گئی ہیں، اس میں کہا گیا کہ ایک پارٹی کو آئین کے آرٹیکل 188 کے تحت نظرثانی کی درخواست داخل کرنے کے لیے اپنی پسند کا وکیل مقرر کرنے کا حق ہوگا۔
وفاقی حکومت کی پریکٹس اینڈ پروسیجرایکٹ کے خلاف دائر درخواستیں مستردکرنے کی استدعا
اس کے علاوہ یہ بھی کہا گیا کہ کسی وجہ، اپیل یا معاملے میں جلد سماعت یا عبوری ریلیف کے لیے دائر کی گئی درخواست 14 دنوں کے اندر سماعت کے لیے مقرر کی جائے گی۔
قانون میں کہا گیا کہ اس کی دفعات کسی بھی دوسرے قانون، قواعد و ضوابط میں موجود کسی بھی چیز کے باوجود نافذ العمل ہوں گی یا کسی بھی عدالت بشمول سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے فیصلے پر اثر انداز ہوں گی۔