امریکا نے خاموشی کے ساتھ تسلیم کیا ہے کہ ایران کے نیم فوجی دستے نے رواں ہفتے ایک سیٹلائٹ کو کامیابی کے ساتھ مدار میں لانچ کیا ہے۔
میڈیا رپورٹ کے مطابق ایران نے جو سیٹلائٹ لانچ کیا ہے، وہ دوسرے ممالک سے مشابہت رکھتا ہے، اس پہلے امریکا ایران کے بیلسٹک میزائل پروگرام میں مدد کرنے پر تنقید کرتا تھا۔
امریکی فوج نے ایسوسی ایٹڈ پریس کی جانب سے تبصرے کے لیے بار بار کی جانے والی درخواستوں کا جواب نہیں دیا گیا۔
ایران نے بدھ کو نور-3 سیٹلائٹ لانچ کرنے کا اعلان کیا تھا، جو کہ ایران کے سویلین خلائی پروگرام کی مسلسل ناکامی کے بعد کے یہ کامیابی کے ساتھ لانچ ہوا تھا۔
جمعہ کے روز ایک اسپیس ٹریک نامی ویب سائٹ کی جانب سے اعداد و شمار جاری کیے تھے، جس میں نور-3 سیٹلائٹ کو مدار میں دیکھایا گیا ہے۔
ویب سائٹ کے لیے معلومات امریکی سپیس فورس کے 18ویں اسپیس ڈیفنس اسکواڈرن کے ذریعے فراہم کی جاتی ہیں، جو کہ امریکی فوج کا جدید ترین دستہ ہے۔
اس نے سیٹلائٹ کو زمین کی سطح سے 450 کلومیٹراوپر رکھا ساتھ ہی سیٹلائٹ کو لے جانے والے راکٹ کو بھی دیکھایا ہے، جسے 2020 میں پہلی بار لانچ کیا تھا۔
جمعرات کی رات ایران کے سرکاری ٹیلی ویژن سے بات کرتے ہوئے گارڈ اسپیس کمانڈر جنرل علی جعفرآبادی نے نور-3 سیٹلائٹ کے حوالے سے کہا کہ یہ پہلے دو مشن سے زیادہ بہتر ہے، جبکہ 2020 میں لانچ کیے جانے والا ناکام ہوگیا تھا۔
جعفرآبادی نے کہا کہ نور-3 میں اپنی رفتار کو کنٹرول کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، اگر آپ دنیا کی حالیہ جنگوں پر نظر ڈالیں، تو آپ دیکھیں گے کہ میدان جنگ میں کامیابی کا انحصار سیٹلائٹ ٹیکنالوجیز کے استعمال پر ہے۔
انہوں نے واضح کیا کہ اب تمام ترقی پسند ممالک کی مسلح افواج اپنے تمام آلات کو ریموٹ کنٹرول بنانے کی کوشش کر رہی ہیں۔
امریکا کا کہنا ہے کہ ایران کا سیٹلائٹ لانچ کرنا اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد کی نفی کرتا ہے اور اس نے تہران سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ایسی کوئی سرگرمی نہ کرے جس میں جوہری ہتھیار لے جانے کی صلاحیت رکھنے والے بیلسٹک میزائل شامل ہوں۔
واضح رہے کہ ایران کے بیلسٹک میزائل پروگرام سے متعلق اقوام متحدہ کی پابندیاں 18 اکتوبر کو ختم ہونے والی ہیں۔