خیبرپختونخوا میں ریپ مقدمات میں سزا کی شرح 15 فیصد سے بھی کم کیوں ہے۔ عدالت سے باہر ’سمجھوتوں‘ کے سبب ملزمان بری ہونے لگے ہیں، متاثرہ خاتون کی ملزم سے شادی کا کیس بھی موجود ہے۔ ایڈووکیٹ عبدالوہاب ترکلانی کہتے ہیں کہ ریپ کیسز میں راضی نامہ کسی صورت قابل قبول نہیں۔ پشاور ہائیکورٹ کے وکیل نعمان محب کاکا خیل نے مطالبہ کیا ہے کہ جدید فارنزک لیب کا قیام جلد عمل میں لایا جائے تاکہ شواہد تاخیر سے ملنے کی صورت میں بھی جرم ثابت ہوسکے۔
ریپ مقدمات میں سزا کی شرح بظاہر کم ہونے کے ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بچوں اور خواتین کے ریپ کم رپورٹ ہوتے ہیں جس کی بڑی وجہ عزت اور اس حوالے سے معاشرے میں پایا جانے والا رویہ بھی ہے جس کے باعث کیسز سامنے نہیں آتے۔ جبکہ کئی متاثرہ لوگوں میں ریپ کیس رپورٹ کرنے سے متعلق آگاہی کا بھی فقدان ہے۔
ماہر قانون یہ سوال بھی اٹھاتے ہیں کہ ریپ واقعہ رپورٹ ہونے اور متاثر شخص کے نہانے یا کپڑے یا جائے وقوعہ دھوئے جانے اور یا پھر کیس کے تاخیر سے رپورٹ کرنے سے سائنسی یا طبی طور پر شواہد ختم ہوجاتے ہیں۔
یہاں آپ کو بتائیں کہ ایبٹ آباد سے تعلق رکھنے والی ساتویں جماعت کی 16 سالہ طالبہ شبنم (فرضی نام) کو 2016 میں اسکے 31 سالہ استاد نے مبینہ جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا تاہم 2019 میں عدالت نے ملزم کو بری کردیا کیونکہ نہ صرف چھ دن تاخیر سے مقدمہ درج کیا گیا تھا بلکہ طبی معائنہ بھی تاخیر سے ہونے کی وجہ ممکنہ طور پر شواہد ختم ہوچکے تھے۔
اسی طرح ضلع بونیر کی 30 سالہ شگفتہ (فرضی نام) کو 2020 میں ریپ کیا گیا اور مئی 2022 میں ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج نے ملزم خان زیب (فرضی نام) کو عمر قید اور ایک لاکھ روپے جرمانے کی سزاء سنائی تاہم ملزم نے پشاور ہائیکورٹ میں اپیل دائر کرکے جرگہ کے ذریعے راضی نامہ اور نکاح نامہ عدالت میں پیش کیا جس پر دسمبر 2022 میں ہائیکورٹ نے ملزم کو بری کردیا۔
ہائیکورٹ نے فیصلے میں لکھا کہ ”یہ جرم نان کمپاؤنڈ ایبل (جس میں راضی نامہ نہیں ہوسکتا) ہے اس حقیقت میں جانے کے بغیر اپیل منظور کی جاتی ہے کیونکہ فریقین نے راضی نامہ کیا متاثرہ کی شادی اپیل کنندہ کے ساتھ ہوگئی ہے جبکہ راضی نامہ فریقین کے وسیع تر مفاد میں بھی ہے“۔
خیبرپختونخوا حکومت نے ایڈووکیٹ جنرل کے ذریعے ہائیکورٹ کا فیصلہ سپریم کورٹ آف پاکستان میں چیلنج کر رکھا ہے جبکہ دونوں خاندانوں کا مؤقف ہے کہ فیصلے کے لئے جرگے کو اختیار دیا گیا تھا اور جرگے کے فیصلے کے مطابق ملزم کیساتھ نہ صرف متاثرہ کا نکاح کرایا گیا بلکہ متاثرہ اور شکایت کنندہ کو معاوضہ بھی دیا گیا اسلئے معاملہ اب ختم ہونا چاہیئے۔
پولیس، محکمہ داخلہ سمیت مختلف ذرائع سے حاصل کردہ معلومات کے مطابق خیبرپختونخوا میں گزشتہ پانچ سالوں کے دوران (2019 سے اب تک) 1 ہزار 122 ریپ کیسز رپورٹ ہوچکے ہیں۔ 2019 میں 259، 2020 میں 299، 2021 میں 125، 2022 میں 365 اور 2023 میں اب تک 74 ریپ کیسز سامنے آئے ہیں۔
خیبرپختونخوا رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ 2013 کے تحت دائر درخواست کے تحت محکمہ داخلہ خیبرپختونخوا سے حاصل کردہ دستاویز کے مطابق گزشتہ پانچ سال (2019 سے اب تک) کے دوران 581 ملزمان کے خلاف عدالتوں میں مقدمات چلائے گئے ہیں۔ دستاویز میں بتایا گیا ہے 581 ملزمان میں 494 ملزمان عدالتوں سے بری ہوئے جبکہ صرف 87 ملزمان کو عدالتوں نے سزائیں سنائیں۔ دستاویز کے مطابق بچوں کے ریپ کیسز میں ملوث 153 ملزمان بری ہوئے جبکہ 64 مجرموں کو سزائیں ہوئیں۔اسی طرح خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی میں ملوث 341 ملزمان پر جرم ثابت نہ ہوسکا جبکہ صرف 23 مجرموں کو سزائیں ہوسکیں۔
دستاویز کے مطابق ریپ کے ملزمان کو سزاء کی شرح 14 اعشاریہ 97 فیصد ہے۔دستاویز میں انکشاف کیا گیا ہے کہ خواتین سے جنسی زیادتی کے ملزمان کو سزاء کی شرح صرف 6 اعشاریہ 31 فیصد اور بچوں کے ریپ کیسز کے ملزمان کو سزاء کی شرح 29 اعشاریہ 49 فیصد ہے۔
محکمہ داخلہ کی دستاویز کے مطابق بچوں کے ریپ کیسز میں ملوث 14 مجرموں کو 2019 میں،12 کو 2020 میں، 22 کو 2021 میں، 11 کو 2022 میں اور 5 مجرموں کو 2023 میں سزائیں ہوئی ہیں۔اسی طرح خواتین کیساتھ جنسی زیادتی کے 3 مجرموں کو 2019 میں، 6 کو 2020 میں، 7 کو 2021 میں اور 7 کو 2022 میں سزائیں سنائی گئیں ۔ 2023 میں کسی ملزم کو تاحال سزاء نہیں ہوئی۔ دستاویز کے مطابق 300 سے زائد ملزمان کے خلاف مقدمات تاحال عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔
بچوں اور خواتین کے حقوق کیلئے کام کرنیوالے سماجی کارکن عمران ٹکر نے محکمہ داخلہ اور پولیس کے ڈیٹا سے اختلاف کرتے ہوئے بتایا کہ خیبرپختونخوا میں ریپ کیسز کی تعداد رپورٹ شدہ سے 10 گنا زیادہ ہے تاہم عزت اور معاشرے میں لوگوں کے رویے کے باعث کیسز سامنے نہیں آتے ہیں جبکہ کئی متاثرہ لوگوں میں ریپ کیس رپورٹ کرنے سے متعلق آگاہی کا بھی فقدان ہے۔ عمران ٹکر کا کہنا تھا کہ انصاف کے حصول کے لیے لوگ کیس رپورٹ کرتے ہیں تاہم انصاف کا حصول انتہائی مہنگا اور پیچیدہ ہے جس کے باعث ریپ کیسز رپورٹ نہیں ہوتے ہیں۔
خواتین کے حقوق کے تحفظ کیلئے سرگرم عورت فاؤنڈیشن کی صائمہ منیر نے عمران ٹکر کی باتوں کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ پولیس کے پاس رپورٹ ہونیوالے ریپ کیسز کی اصل تعداد بہت زیادہ ہے کیونکہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ریپ کو رپورٹ کیا تو معاشرے میں انکی عزت ختم ہوجائےگی جبکہ ریپ کیسز کے ملزمان کی سزاء کی شرح بھی نہ ہونے کے برابر ہے اسلئے بھی لوگ ریپ کو چھپاتے ہیں۔
ورلڈ پاپولیشن ریویو اور وائزووٹر کی ویب سائٹ سے حاصل کردہ ریپ کے اعداد و شمار 2023 کے مطابق 144 ممالک کی فہرست میں سب سے زیادہ ریپ کیسز جنوبی افریقہ کے ملک بوٹسوانا میں سامنے آئے ہیں جہاں ہر 1 لاکھ میں 96 افراد کو ریپ کا نشانہ بنایا جاتا ہے جبکہ برمودا اور عمان میں کوئی ریپ کیس نہیں آیا۔ فہرست میں پاکستان 91 ویں نمبر پر ہے جہاں ہر 1 لاکھ میں 3 افراد کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے جبکہ 8 کیسز کیساتھ بنگلادیش 62 ویں اور انڈیا 2 اعشاریہ 63 کیسز کیساتھ 94 ویں نمبر پر ہے۔
”علاقے میں لوگ سے آنکھیں نہیں ملا سکتے اسلئے گھر سے باہر ہی نہیں نکلتے، یہاں تک کے مسجد جانا ہی چھوڑ دیا ہے“، یہ الفاظ پشاور کے 50 سالہ غنی الرحمان (فرضی نام) کے ہیں جس کے 11 سالہ بچے کو 22 دن قبل ریپ کا نشانہ بنایا گیا۔
غنی الرحمان نے بتایا کہ انہوں نے اپنے خاندان کے افراد کو ریپ کی بجائے لڑائی کا بتایا اسلئے اب انہوں نے گھر تبدیل کرکے علاقہ چھوڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔
پشاور ہائیکورٹ کے وکیل سجاد احمد محسود نے ایک کلائنٹ کی کہانی بتاتے ہوئے کہا کہ 2018 میں کوہاٹ میں 8 سالہ بچے کو جب جنسی ذیادتی کا نشانہ بنانا گیا تو اسکے خاندان کو نہ صرف کچھ وقت کے لئے کاروبار ترک کرنا پڑا بلکہ لوگوں کے طعنوں کی وجہ سے ایک ماہ کے اندر علاقہ بھی چھوڑنا پڑا۔ سجاد محسود کا ماننا ہے کہ اس بات کا قوی امکان ہے کہ کچھ لوگ ریپ کو رپورٹ کرنے کی بجائے خود یا انکے خاندان والے ریپ کے بعد انکی زندگی ختم کردیتے ہیں۔
پاکستان پینل کوڈ 1860 کے سیکشن 375 کے مطابق ایک مرد کو ریپ کا مرتکب کہا جاتا ہے جو کسی عورت کے ساتھ ایسی پانچ صورتوں میں جنسی تعلق رکھتا ہے۔(1) اس کی مرضی کے خلاف،(2) اس کی رضامندی کے بغیر،(3) جب اسے موت یا تکلیف کے خوف میں ڈال کر رضامندی حاصل کی گئی ہو، (4) اس کی رضامندی سے، جب مرد جانتا ہے کہ اس کی اس سے شادی نہیں ہوئی ہے اور رضامندی اس لیے دی گئی ہے کیونکہ اسے یقین ہے کہ وہ شخص کوئی اور شخص ہے جس سے وہ ہے یا خود کو شادی شدہ مانتی ہے اور (5) اس کی رضامندی کے ساتھ یا بغیر جب اس کی عمر 16 سال سے کم ہو۔
پاکستان پینل کوڈ 1860(پی پی سی) کے سیکشن 376 کے مطابق جو بھی ریپ کا ارتکاب کرتا ہے اسے سزائے موت دی جائے گی یا کسی بھی وضاحت کی قید کی سزا دی جائے گی جو کہ 10 سال سے کم یا 25 سال سے زیادہ نہیں ہوگی اور ساتھ جرمانہ بھی عائد کیا جائیگا جبکہ کینگ ریپ کی صورت میں ہر مجرم کو موت یا عمر قید کی سزا دی جائے گی۔
اینٹی ریپ ایکٹ 2021 کے سیکشن 24 کے تحت نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) جنسی مجرموں کا ایک رجسٹر تیار کرے گی اور اسی سلسلے میں نادرا نے رواں سال مئی میں نیشنل سیکس اُفنڈرز رجسٹری (این ایس او آر) کے نام سے نئی سہولت متعارف کرادی جس کے تحت شہری 13 ہندسوں کا شناختی کارڈ نمبر 7000 پر بھیج کر سزاء یافتہ جنسی مجرم کے حوالے سے تصدیق کرسکتے ہیں تاہم وزرات قانون کے اعتراضات کے باعث یہ سسٹم فی الحال غیر فعال ہے۔
وزارت قانون کا مؤقف ہے کہ ایکٹ کے تحت خصوصی کمیٹی کے تعاون سے وزارت قانون و انصاف کو این ایس او آر کی ذمہ داری تفویض کی گئی ہے تاہم نادرا نے مناسب قانونی منظوری کے بغیر یکطرفہ طور پر رجسٹر کا استعمال کیا ہے۔
پشاور ہائیکورٹ کے وکیل عبدالوہاب ترکلانی نے آج نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ریپ کیسز میں مقدمہ تاخیر سے درج کرنے کے ساتھ معاشرے کے رویے کے پیش نظر اصل حقائق کو بیان نہیں کیا جاتا جس کی وجہ سے ملزمان کی بریت کا امکان بڑھ جاتا ہے جبکہ مرکزی ملزم کیساتھ ساتھ ایف آئی آر میں دیگر ملزمان کو بھی نامزد کیا جاتا ہے جسکی وجہ سے بھی مقدمہ کمزور پڑ سکتا ہے۔
ایڈووکیٹ عبدالوہاب ترکلانی نے راضی نامے کی بنیاد پر ہائیکورٹ کی جانب سے ملزم کی بریت کو متنازع فیصلہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ کہ ریپ کیسز میں راضی نامہ کسی صورت قابل قبول نہیں تاہم 85 فیصد واقعات میں باہر راضی نامہ کرکے عدالت میں بیانات کو تبدیل کردیا جاتا ہے جسکی وجہ سے بھی بریت لازمی ہوجاتی ہے اور راضی نامے کی صورت میں اکثر اوقات معاوضہ وصول کیا جاتا ہے جبکہ چند واقعات میں شادی بھی ہوجاتی ہے۔
ایڈووکیٹ نازش علی کا ماننا ہے کہ ’ملزم کو مجرم ٹھہرانے کے لیے مضبوط شواہد انتہائی ضروری ہیں تاہم جب واقعہ رپورٹ ہو اور متاثر شخص نہا لیتا ہے یا کپڑے یا جائے وقوعہ دھو لیا جاتا ہے اور پھر کیس بعد میں رپورٹ کرنے سے سائنسی یا طبی طور پر شواہد ختم ہوجاتے ہیں جبکہ ریپ کیس میں گواہان بھی نہیں ہوتے ہیں اور صرف متاثر فریق کے بیان پر انحصار سے کیس کمزور ہوجاتا ہے‘۔
سینئر قانون دان شبیر حسین گگیانی کا کہنا ہے کہ ریپ کیسز میں ملزمان کو سزاء دلوانے میں پولیس کی تفتیش، شواہد اور جدید فارنزک لیب کا اہم کردار ہے تاہم خیبرپختونخوا میں پولیس کی ناقص تفتیش اور جدید فارنزک لیب نہ ہونے کی وجہ سے ملزمان کو سزاء ہونا ممکن نہیں۔ شبیر حسین گگیانی ایڈووکیٹ نے بتایا کہ بدقسمتی سے ایک دوسرے سے بدلہ یا انتقام لینے کے لئے بھی کبھی کبھار ریپ قانون کا غلط استعمال کرکے جھوٹے مقدمات درج کئے جاتے ہیں۔
”گزشتہ ایک ماہ جس اذیت سے گزارا، اسکا کبھی سوچا بھی نہیں تھا“، یہ کہانی پشاور میں مسجد کے امام نور خان (فرضی نام) کی ہے۔ نور خان کو گزشتہ ماہ ریپ کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا تاہم 20 دن جیل اور جسمانی ریمانڈ میں گزارنے کے بعد نور خان کو عدالت نے ضمانت پر اسلئے رہا کردیا کیونکہ کیس میں نہ صرف طبی رپورٹ مکمل منفی آئی بلکہ نور خان کے خلاف اور بھی کوئی ثبوت تاحال سامنے نہیں آیا۔
نور خان نے بتایا کہ شکایت کنندہ سے چند روز قبل لڑائی ہوئی تھی اور اسی دوران اس نے ’بے عزت‘ کرنے کی دھمکی دی تھی۔ نور خان کا کہنا تھا کہ وہ مدرسے میں بچوں کو مفت قران پاک پڑھاتے ہیں جس کے باعث انکے مخالف کے مدرسے میں کوئی بچہ نہیں جاتا اس لئے مخالف نے انکا مدرسہ بند کروانے کی غرض سے جھوٹے مقدمے کا سہارا لیا ۔
پشاور کے ڈپٹی پبلک پراسیکیوٹر شاہ سعود نے بتایا کہ خیبرپختونخوا کی عدالتوں میں کیسز کی تعداد انتہائی زیادہ اور پراسیکیوٹرز کی کم ہیں جس کی وجہ سے بھی ریپ کیسزکی پیروی متاثر ہورہی ہے۔
خیبرپختونخوا رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ 2013 کے تحت ڈائریکٹوریٹ آف پراسیکیوشن خیبرپختونخوا سے حاصل کردہ معلومات کے مطابق خیبرپختونخوا میں 172 پراسیکیوٹرز کی کمی کا سامنا ہے کیونکہ صوبے بھر کے لئے پراسیکیوٹرز کی منظور شدہ آسامیوں کی تعداد 507 ہے لیکن فی الحال 335 پراسیکیوٹرز تعینات ہیں جبکہ 172 آسامیاں خالی ہیں۔
ڈائریکٹوریٹ آف پراسیکیوشن خیبرپختونخوا کا موقف ہے کہ خالی آسامیوں پر 70 سے زائد پراسیکیوٹرز کی بھرتیوں کا عمل عنقریب مکمل ہوجائیگا جبکہ باقی آسامیوں پر بھی پراسیکیوٹرز کی تعیناتی کا عمل شروع ہوگا۔
پشاور ہائیکورٹ کے وکیل نعمان محب کاکاخیل کا کہنا ہے کہ شہریوں میں ریپ قوانین اور واقعات سے متعلق آگاہی اور شعور کی اشد ضرورت ہے تاکہ متاثر شخص فوری طور پر واقعہ رپورٹ کرسکے اور معاشرے میں متاثرہ شخص کو بری نظر سے نہ دیکھا جائے کیونکہ ریپ کسی کی مرضی سے نہیں کیا جاتا۔ نعمان کاکاخیل نے مطالبہ کیا کہ جدید فارنزک لیب کا قیام جلد عمل میں لایا جائے تاکہ شواہد تاخیر سے ملنے کی صورت میں بھی جرم ثابت ہوسکے۔ نعمان کاکاخیل نے کہا کہ بالخصوص خواتین کو آگاہی دینی چاہیے کہ وہ ریپ کے بعد شواہد کو کیسے محفوظ رکھ سکتی ہیں۔
ڈپٹی پبلک پراسیکیوٹر شاہ سعود نے کہا کہ ریپ کیسز میں جدید سائنسی اور طبی تفتیش کی بجائے 90 سال پرانے اور بوسیدہ پولیس رولز کے مطابق تفتیش ہوتی ہے جو موجودہ دور میں کسی مضبوط کیس کے لیے کافی اور مؤثر نہیں اسلئے رولز پر نظرثانی کرنی ہوگی کیونکہ آج بھی کرائم سین پر فاصلہ قدموں میں ناپا جاتا ہے جس کی بجائے ویڈیو گرافی بہترین طریقہ ہوسکتا ہے جبکہ تفتیشی ٹیم کو تعلیم کیساتھ اعلی تربیت کی بھی ضرورت ہے تاکہ ان سے شواہد ضائع نہ ہوں۔ شاہ سعود نے نشاندہی کی کہ صوبے بھر میں کہیں بھی متاثرہ خواتین کے لیے کوئی مختص جگہ نہیں جہاں وہ پراسیکیوٹر کیساتھ کھل کر بغیر کسی خوف و خطر اصل حقائق بتا سکیں اسلئے ایسے دفاتر یا سیل کا قیام بھی ناگزیر ہے۔
پشاور ہائیکورٹ کی وکیل عظمیٰ ستار نے بھی تفتیشی ٹیم کی تربیت اور فرانزک سائنس کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ریپ کیسز میں گواہان نہیں ہوتے اسلئے جائے وقوع سے شواہد اکھٹے کرنے کےلیے تفتیشی ٹیم کی اعلی تربیت انتہائی اہمیت کی حامل ہے اور پھر فرانزک لیب سے موثر انداز میں شواہد کا تجزیہ پیش کیا جائے تو ملزم کے بری ہونے کے امکانات کم ہوسکتے ہیں۔عظمیٰ ستار نے بتایا کہ کبھی کبھار ناجائز مقاصد کے حصول کے لئے جعلی مقدمے بھی بنائے جاتے ہیں جسکی روک تھام کو بھی یقینی بنانا ہوگا۔
خیبرپختونخوا کے ایڈیشنل انسپٹکر جنرل انویسٹی گیشن ڈاکٹر اشتیاق احمد مروت کا مؤقف ہے کہ ”ہر مجرم ایک نشان چھوڑتا ہے“ اور شواہد ہی پولیس کو مشتبہ شخص تک پہنچنے اور اسکی گرفتاری میں مدد دیتے ہیں تاہم شواہد سے تجزیاتی اور تصدیقی رائے حاصل کرنے کے لیے صوبے میں جدید ترین فرانزک لیب کی اشد ضرورت ہے کیونکہ تفتیش کے دوران جائے وقوعہ سے یا کسی شخص سے اکھٹے کئے گئے جسمانی شواہد کا تجزیہ لیبارٹری میں کیا جاتا ہے۔
ڈاکٹر اشتیاق کا ماننا ہے کہ پیشہ وارانہ تربیت کے ذریعے تفتیشی افسران کی تفتیشی صلاحیتوں کو بہتر بنانے کےلیے وقتاً فوقتاً سیشنز کا انعقاد کیا جاتا ہے جبکہ فرانزک سائنس کے ذریعے شواہد مقدمات کی تفتیش میں تفتیشی آفیسر کی مدد کرسکتے ہیں اور بعد ازاں اس ثبوت کو عدالتوں میں بطور گواہی پیش کیا جاسکتا ہے جس سے مقدمات کو نمٹانے میں بہتری آئیگی۔
خیبرپختونخوا کے نگراں مشیر صحت ڈاکٹر ریاض انور نے بتایا کہ نگران کابینہ کی منظوری کے بعد 10 ارب روپے کی لاگت سے صوبے میں اپنی نوعیت کی پہلی بڑی فارنزک لیب پشاور کے علاقہ حیات آباد میں بننے جارہی ہے۔ ڈاکٹر ریاض انور کا کہنا تھا کہ جدید فارنزک لیب میں پوسٹ مارٹم، شناخت کیلئے ڈی این اے ٹیسٹنگ اور فنگر پرنٹس کے تجزیے ہونگے جس سے جرائم کی تفتیش اور مجرموں کی شناخت میں مدد ملے گی۔