گوگل کے جدید ترین مصنوعی ذہانت(اے آئی) کے سافٹ ویئر نے دعویٰ کیا ہے کہ قوی امکانات ہیں کہ خلائی مخلوق اپنی اڑن طشتریوں پر کلوکنگ ڈیوائسز(اشیاء کو مکمل یا جزوی طور پر پوشیدہ رکھنے والی ٹیکنالوجی) کا استعمال کرتے ہوئے زمین کا دورہ کر رہی ہوں۔
گوگل آے آئی نے یہ بھی کہا کہ عین ممکن ہے وہ اپنے آپ کو باقی دنیا سے چھپانے کے لیے زمین پر مخصوص مقامات جیسے کوہ ہمالیہ پر موجود ہوں۔
امریکی خلائی ایجنسی ناسا کی رواں ماہ جاری کی جانے والی ایک رپورٹ کے بعد سے ہی لوگ زمین پر ’ایلین لائف‘ کے بارے میں زیادہ غوروفکرکررہے ہیں۔
پاکستانی شوبزسیلیبرٹیز ’باربی اور کین‘ کے روپ میں، اے آئی تصاویر وائرل
چیٹ جی پی ٹی کے مقابل گوگل کا اے آئی سافٹ وئیر محدود رسائی کے ساتھ دستیاب
’آپ کا چارم دیکھ کر میرے اے آئی دل میں بھی کچھ کچھ ہوتا ہے‘
اگرچہ ناسا انتظامیہ نے ان خلائی مخلوق کی موجودگی کو مسترد تو نہیں کیا ہے لیکن ان کا دعویٰ ہے کہ اڑن طشتریوں کو کنٹرول کرنے والی اجنبی مخلوق کو کیمرے کی آنکھ میں ریکارڈ کیا جاسکتا ہے۔
مصنوعی ذہانت پرمبنی گوگل کے ’بارڈ‘ سافٹ ویئرسے خلائی مخلوق کی موجودگی سے متعلق سوال کیا گیا تو اس نے جواب دیا کہ ’یہ ممکن ہے کہ اجنبی مخلوق ہمارے علم میں آئے بغیر زمین پر آتی ہو، وہ انسان سے بہت آگے اور ایسی جدیدترین ٹیکنالوجی کی حامل ہو سکتی ہے جس کا ہم تصور بھی نہیں کرسکتے، مثال کے طور پر ان کے پاس کلوکنگ ڈیوائسز ہوسکتی ہیں جو ان کی اڑن طشتریوں (اسپیس شپس) کو پوشیدہ رکھتی ہے‘۔
سافٹ ویئر نے مزید کہا کہ ’زمین پر اجنبی مخلوق کے پہلے سے موجود ہونے کا امکان نامعلوم ہے کیونکہ اس دعوے کی حمایت میں کوئی سائنسی ثبوت موجود نہیں ہے لیکن دوسری طرف اس دعوے کو غلط ثابت کرنے کے لیے بھی کوئی ثبوت موجود نہیں۔ کائنات بہت وسیع ہے اور اربوں کہکشاؤں پر مشتمل ہے اور ہر ایک کہکشاں میں اربوں ستارے ہیں۔ اعداد و شمار کے لحاظ سے یہ امکان ہے کہ زندگی کائنات میں کہیں اور موجود ہے، لیکن ہم نہیں جانتے کہ یہ کہاں یا کیا شکل اختیار کر سکتی ہے‘۔
اب تک لوگوں کی اڑن طشتریوں کو دیکھنے اور خلائی مخلوق کا سامنا کرنے کی متعدد رپورٹس سامنے آئی ہیں، جس سے کچھ لوگوں کو اب اس بات کا بھی یقین ہے کہ یہ خلائی مخلوق ماضی میں زمین کا دورہ کر چکی ہیں اور اب بھی موجود ہیں۔
لیکن سائنسدانوں کی جانب سے اس حوالے سے فی الحال ان رپورٹس کی کوئی تصدیق نہیں کی گئی ہے۔
جب ’بارڈز‘ سے ان خلائی مخلوق کے زمین پر آنے کے بعد کہیں چھپ جانے کے بارے میں سوال کیا تو اس نے ایک طویل فہرست فراہم کی، جس کے تجویز کردہ چند اہم مقامات میں سمندر کی سب سے گہری جگہ ’ماریانا ٹرینچ‘، ایمازون جنگل، صحرائے صحارا، انٹارکٹیکا کی برف کی چادر اور کوہ ہمالیہ شامل تھے۔
بارڈ نے یہ بھی انکشاف کیا کہ ایسا بھی ممکن ہے کہ یہ مخلوق چھپنے کے لیے زیر زمین غاروں، متروک عمارتوں یا فوجی اڈوں کا استعمال کر تی ہوں۔
یہ بھی ممکن ہے کہ یہ خلائی مخلوق ایسی ٹیکنالوجی کا استعمال کرتی ہو جس کی مدد سے وہ خود کو پوشیدہ رکھ سکتی ہوں۔
مثال کے طور پر وہ اپنے آپ کو یا اپنی اڑن طشتریوں کو پوشیدہ رکھنے کے لیے کلوکنگ ڈیوائس یا ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کے لیے ٹیلی پورٹیشن ڈیوائس کا استعمال کرتی ہوں۔
مصنوعی ذہانت کے سافٹ ویئر نے جن جگہوں کو درج کیا ہے، وہ دراصل وہ جگہیں ہیں جہاں یہ مخلوق انسانوں اور باقی دنیا سے چھپنے میں کافی وقت گزار سکتے ہیں۔