امریکی عدالت میں گوانتاناموبے میں قید عبد الرحیم النشیری کے مقدمے کی سماعت ہوئی جس میں ڈاکٹر سونڈرا ایس کروسبی بھی پیش ہوئیں، دوران سماعت انہوں نے امریکی خفیہ ایجنسی ”سی آئی اے“ کی جانب سے استعمال کیے گئے ”ریکٹل فیڈنگ“ ٹارچر کے طریقہ کار کی مذمت کی۔
عبد الرحیم النشیری پر امریکی جنگی بحری جہاز ”یو ایس ایس کول“ پر بمباری کی منصوبہ بندی میں حصہ لینے کا الزام ہے۔
لیکن ان کے وکلاء کا دعویٰ ہے کہ النشیری نے جو بھی اعترافی بیانات دیے وہ تشدد کے زریعے لیے گئے تھے۔
القاعدہ کی طرف سے یو ایس ایس کول پر کی گئی بمباری ایک ایسا حملہ ہے جس نے اکتوبر 2000 میں 17 امریکی بحریہ کے اہلکاروں کی جان لی تھی۔عبدالرحیم النشیری کا دعویٰ ہے کہ 2013 میں جیل کے عملے نے ان پر تشدد کے لیے ”ریکٹل فیڈنگ“ کا استعمال کیا۔
النشیری کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ جیل کے عملے کی طرف سے جھاڑو کے سرے سے ان کے ساتھ بدفعلی کی گئی۔
ڈاکٹر کروسبی نے وضاحت کی کہ ’ریکٹل فیڈنگ‘ ایک ایسا طریقہ ہے جس میں سی آئی اے جیل کا عملہ ایک ٹیوب لیتا ہے جسے سانس کی نالی میں لگانے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے، اور اسے قیدی کے مقعد میں گھسا دیتا ہے۔
پھر عملہ اس پائپ میں ایک سرنج کی مدد سے مقعد میں پتلی غذا داخل کرتا ہے، اور ٹیوب کو 30 منٹ کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے۔
نیویارک ٹائمز کے مطابق سی آئی اے نے اسے ’طبی طریقہ کار‘ قرار دیا۔
تاہم، فزیشن فار ہیومن رائٹس نے اس پریکٹس کی ’طبی علاج کے طور پر جنسی حملہ‘ کے طور پر مذمت کی۔
طبی پریکٹیشنرز کے گروپ نے کہا کہ غذا دینے کیلئے منہ اور نس کے ذریعے متبادل موجود ہیں، یہی وجہ ہے کہ ریکٹل فیڈنگ کو طبی تناظر میں استعمال نہیں کیا جاتا۔
2014 میں اوباما انتظامیہ نے 500 صفحات پر مشتمل ایک دستاویز جاری کی تھی جس میں سی آئی اے کی کچھ ’بلیک سائٹ‘ پروگرامز کی تفصیل تھی۔
دستاویز سے اس بات کی تصدیق ہوئی تھی کہ ریکٹل فیڈنگ جیل عملے کی جانب سے استعمال کیے جانے والا تشدد کا ایک طریقہ ہے۔
ہیومن رائٹس واچ کا دعویٰ ہے کہ 2002 سے اب تک 780 مردوں کو خفیہ طور پر جیل میں رکھا گیا ہے اور ان میں سے کم از کم 39 مردوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
تنظیم کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ اس جیل میں اب بھی 39 افراد زیر حراست ہیں اور ان میں سے 27 پر کوئی مجرمانہ الزام عائد نہیں کیا گیا۔
ہیومن رائٹس واچ میں ایسوسی ایٹ کرائسس اینڈ کنفلیکٹ ڈائریکٹر لیٹا ٹیلر نے کہا کہ ’دنیا بھر میں گوانتاناموبے ناانصافی، بدسلوکی اور قانون کی حکمرانی کو نظر انداز کرنے کی سب سے پائیدار علامتوں میں سے ایک ہے جسے امریکہ نے 9/11 کے حملوں کے جواب میں شروع کیا تھا‘۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ہائی کمشنر کے دفتر نے رپورٹ کیا کہ ’2003 میں گوانتانوموبے میں 700 قیدی تھے۔ بیس سال بعد اب 39 قیدی باقی ہیں لیکن ان میں سے صرف نو پر جرائم کا الزام عائد کیا گیا ہے یا سزا یافتہ ہیں، جبکہ 13 کو منتقلی کے لیے کلیئر کر دیا گیا ہے۔ 2002 اور 2021 کے درمیان نو زیر حراست افراد کی موت ہوئی، دو فطری وجوہات سے اور سات نے مبینہ طور پر خودکشی کی۔ ان میں سے کسی پر جرم کا الزام یا سزا نہیں دی گئی تھی۔‘