نگراں وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا ہے کہ پاکستان بڑی طاقتوں کے مقابلے میں فریقین کا انتخاب کیے بغیر اپنے مفادات پر توجہ دے رہا ہے، جبکہ مغرب چین کو محدود کرنے کی کوششوں میں جنون میں مبتلا ہے، پاکستان چین کو اپنا سدابہار دوست اور اسٹریٹجک شراکت دار سمجھتا ہے۔
بدھ کو واشنگٹن پوسٹ میں شائع ہونے والے انٹرویو میں نگراں وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان یوکرین کے ساتھ روس کی جنگ پر ’غیرجانبدار‘ ہے اور چین کو اپنے سدابہار دوست اور اسٹریٹجک شراکت دار کے طور پر دیکھتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ سرد جنگ نہیں ہے، یہاں کوئی ”آئرن کرٹن“ نہیں ہے، یہ اتنا مبہم نہیں ہے، ہر کوئی دیکھ رہا ہے کہ کیا ہو رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان ایک ایسی راہ پر گامزن ہے جس کا انتخاب مغرب، روس اور چین کے درمیان مسابقت سے بچنے کے لیے کیا گیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان امریکہ اور چین کی بڑھتی ہوئی دشمنی میں کسی بھی کیمپ کا حصہ بننے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔
انوارالحق کاکڑ نے کہا کہ سوویت یونین کے خلاف اور 9/11 کے بعد دوبارہ مغرب کا ساتھ دے کر پاکستان نے بڑی قیمت ادا کی۔
نگراں وزیراعظم نے کہا کہ گزشتہ 30 سالوں میں پاکستان کے ساتھ مغرب نے غیر منصفانہ سلوک کیا ہے، ’ہر قوم اپنے لیے… ہمیں اس مقابلے کی فکر کیوں کرنی چاہیے؟ یہ دو عظیم طاقتوں، دو عظیم تہذیبوں اور 150 سے زیادہ ممالک پر مضمرات کے درمیان ہے اور پاکستان ان ممالک میں سے صرف ایک ہے‘۔
یوکرین کے بارے میں پاکستان کے ”غیر جانبدار“ مؤقف کا ذکر کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ یہ بحران چیلنجز پیدا کر رہا ہے اور ساتھ ہی یہ خطے میں مواقع بھی پیدا کر رہا ہے اور ہم اسے دونوں طریقوں سے دیکھ رہے ہیں۔
وزیراعظم نے پاکستان کی جانب سے یوکرین میں جنگی سازوسامان منتقل کرنے کے حوالے سے میڈیا رپورٹ میں الزامات کی سختی سے تردید کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے کسی بھی قسم کی فروخت نہیں کی جو براہ راست یوکرین یا حتیٰ کہ کسی تیسرے فریق کے ذریعے بھی کسی قسم کا لین دین ہو۔
پاکستان تحریک انصاف کے کارکنوں کی گرفتاری کے حوالے سے وزیراعظم نے مبینہ زیادتیوں کی تردید کی اور پاکستان کے اقدامات کا موازنہ 6 جنوری 2021 کو امریکی کیپیٹل پر حملہ کرنے والوں کی امریکہ میں گرفتاریوں سے کیا۔
انہوں نے کہا کہ گرفتاریاں غیر قانونی کارروائیوں پر کی جا رہی ہیں، کوئی ایسا شخص جو آتشزنی یا توڑ پھوڑ میں ملوث ہے، یہ اس قسم کا طرز عمل نہیں ہے جسے کسی بھی لبرل جمہوریت کے ذریعہ فروغ دیا جاتا ہے یا اس کی تائید ہوتی ہے، تو پھر پاکستان سے یہ توقع کیوں کی جا رہی ہے کہ ہم اس طرح کے رویے کو معاف کریں؟