الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نے ابتدائی حلقہ بندیوں کی باضابطہ منظوری دے دی ہے، ابتدائی حلقہ بندیوں پر اعتراضات 27 اکتوبر تک الیکشن کمیشن میں جمع کرائے جا سکتے ہیں۔
الیکشن کمیشن کے جاری اعلامیے کے مطابق ابتدائی حلقہ بندیوں کی رپورٹ بمع فارم 5 عوام الناس کی آگاہی کے لیے شائع کر دی گئی ہے، ابتدائی حلقہ بندیوں کی رپورٹ الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر بھی موجود ہے۔
ابتدائی رپورٹ میں کراچی کی قومی اسمبلی کی نشستوں کی تعداد 22 ہے جبکہ کراچی کے سات اضلاع میں سندھ اسمبلی کی نشستوں کی تعداد 47 ہے۔
اس سے قبل قومی اسمبلی میں کراچی کی نشستوں کی تعداد 21 اور سندھ اسمبلی میں 44 تھی۔
الیکشن کمیشن کی جانب سے اعلامیے میں بتایا گیا ہے کہ ابتدائی حلقہ بندیوں کی اشاعت 27 ستمبر سے 26 اکتوبر تک جاری رہے گی، ابتدائی حلقہ بندیوں پر اعتراضات متعلقہ حلقے کا ووٹر کر سکتا ہے۔
الیکشن کمیشن کے اعلامیے میں مزید کہا گیا کہ ابتدائی حلقہ بندیوں پر اعتراضات 27 اکتوبر تک الیکشن کمیشن میں جمع کرائے جا سکتے ہیں، اعتراضات دائر کرنے کے لیے متعلقہ حلقے کا ووٹر ہونا ضروری ہے۔
الیکشن کمیشن نے گوشواروں کی تفصیلات جمع نہ کرانے سے متعلق فیصلہ محفوظکرلیا
حلقہ بندیاں 30 نومبر تک مکمل، انتخابات جلد سے جلد ہونگے، الیکشنکمیشن
الیکشن کمیشن کے مطابق ضلع کے نقشہ جات الیکشن کمیشن سے ضروری قیمت ادا کر کے لیے جا سکتے ہیں، بذریعہ کوریئر ڈاک اور فیکس اعتراضات قابل قبول نہیں ہوں گے، الیکشن ایکٹ 2017 کے رول 12 کے تحت اعتراضات جمع کروانے ہوں گے۔
الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری حلقہ بندیوں کی ابتدائی اشاعت کے مطابق قومی اسمبلی جنرل نشستوں کی تعداد 266 ہوگی، جس میں 60 فیصد خواتین کی مخصوص نشستیں ہوں گی۔10 نشستیں غیر مسلموں کے لیے بھی مختص کی گئی ہیں۔
پنجاب میں قومی اسمبلی میں 141، سندھ میں 61، خیبر پختونخو میں 45 جبکہ بلوچستان میں قومی اسمبلی کی 16 نشتیں ہوں گی، وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں قومی اسمبلی کی 3 سیٹیں ہوں گی۔
پنجاب اسمبلی میں جنرل نشستوں کی تعداد 297 ہوگی، سندھ اسمبلی میں نشستوں کی تعداد 130، خیبرپختونخوا اسمبلی میں نشستوں کی تعداد 115 ہوگی جبکہ بلوچستان اسمبلی کی جنرل نشتیں 51 ہوں گی۔
قومی اسمبلی کی 266 جنرل سیٹیں جبکہ 60 خواتین کے لیے مخصوص نشستیں ہوں گی، صوبائی اسمبلیوں کی جنرل نشستوں کی تعداد 593 اور خواتین کی 132 مخصوص نشستیں ہوں گی، اقلیتوں کے لیے صوبائی اسمبلیوں میں 24 نشستیں ہوں گی۔
خیبر پختونخوا میں قومی اسمبلی کا حلقہ 9 لاکھ 7ہزار913، اسلام آباد کا حلقہ 7 لاکھ 87 ہزار 954، پنجاب کا حلقہ 9 لاکھ 5 ہزار 595، سندھ کا حلقہ 9 لاکھ 13 ہزار 52، جبکہ بلوچستان کا قومی اسمبلی کا حلقہ 9 لآکھ 30 ہزار 900 کی آبادی پر مشتمل ہوگا۔
خیبرپختونخوا صوبائی اسمبلی کا حلقہ 3 لاکھ 55 ہزار270، پنجاب اسمبلی کا حلقہ 4 لاکھ 29 ہزار 929، سندھ اسمبلی کا صوبائی حلقہ 4 لاکھ 28 ہزار 422 جبکہ بلوچستان صوبائی اسمبلی کا حلقہ 2 لاکھ 92 ہزار 47 کی آبادی پر مشتمل ہوگا۔
الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کردہ نئی حلقہ بندیوں کی فہرست کے مطابق کراچی میں قومی اسمبلی کی ایک نشست کا اضافہ ہوگیا ہے۔
ابتدائی حلقہ بندیوں میں سانگھڑ کی قومی اسمبلی کی ایک نشست کم ہوگئی، جس کے بعد سانگھڑ سے قومی اسمبلی کی نشستیں تین سے کم ہوکر 2 رہ گئیں۔
وہیں کراچی ساؤتھ کی قومی اسمبلی کی ایک نشست میں اضافہ ہوا اور ساؤتھ کی قومی اسمبلی کی نشستیں دو سے بڑھ کر تین ہوگئیں۔
الیکشن کمیشن کی جانب سے کراچی کی تین صوبائی نشستوں کا اضافہ کیا گیا ہے، جس کے تحت ملیر، کراچی ایسٹ اور کراچی سینٹرل میں ایک نشست میں اضافہ ہوگیا۔
اسی طرح خیرپور، سانگھڑ اور ٹھٹھہ کی ایک ایک نشست کم کی گئی ہے۔
نئی حلقہ بندیوں کے مطابق خیرپور کی صوبائی اسمبلی کی نشستیں سات سے کم ہو کر چھ، ٹھٹھہ کی تین سے کم ہو کر دو اور سانگھڑ کی چھ سے کم ہو کر پانچ نشستیں رہ گئیں۔
کراچی کی بڑھتی آبادی کے باعث نشستوں میں اضافہ کیا گیا ہے، یوں کراچی میں قومی اسمبلی کی کل نشستوں کی تعداد بائیس اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں کی تعداد سینتالیس ہوگئی ہے۔
مجوزہ حلقہ بندیوں میں پنجاب اسمبلی کی مجموعی نشستیں برقرار ہیں مگر کچھ نئے اضلاع بننے کی وجہ سے کئی علاقوں کو علیحدہ نشستیں ملی ہیں۔
راولپنڈی کی صوبائی اسمبلی کی نشستیں 15 سے کم ہو کر 13 کی گئی ہیں۔
گجرات کی نشستیں 7 سے بڑھ کر 8، بھکر کی 4 سے بڑھ کر 5، قصور کی 9 سے بڑھ کر 10 اور راجن پور کی 5 سے بڑھ کر 6 نشستیں ہو گئیں ہیں۔
لاہور ہائی کورٹ نے 2023 میں وزیر آباد کی ضلع کی حیثیت بحال کی ہے اور اب نئی حلقہ بندیوں میں وزیر آباد کو بھی 2 نشستیں ملی ہیں۔
کوٹ ادو اور تونسہ کو بھی 2022 میں ضلع کا درجہ دیا گیا تھا، اس بار دونوں اضلاع کے لیے دو، دو نشستیں تجویز کی گئی ہیں۔
سیالکوٹ کی نشستیں 11 سے کم ہو کر 10، گجرنوالہ کی 14 سے کم ہو کر 12، ملتان کی 13 سے کم ہو کر 12، لودھراں کی پانچ سے کم ہو کر 4، مظفر گڑھ کی 12 سے کم ہو کر 8 اور ڈیرہ غازی خان کی 8 سے کم ہو کر 6 رہ گئی ہیں۔
قبائلی علاقوں کے خیبر پختونخوا میں ضم ہونے سے صوبائی اسمبلی کی نشستیں 99 سے بڑھا کر 115 رکھی گئی ہیں۔ نئی حلقہ بندیوں میں قبائلی علاقے باجوڑ کو 4، مہمند کو 2 اور خیبر کو 3 نشستیں ملی ہیں۔
جنوبی وزیرستان، شمالی وزیرستان اور کُرم کو دو، دو جبکہ اورکزئی کو ایک نشست ملی ہے۔
چترال کی نشست ایک سے بڑھ کو 2، شانگلہ کی 2 سے بڑھ کر 3 ہو گئی ہیں۔
جبکہ پشاور کی نشستیں 14 سے کم ہو کر 13 اور ہنگو کی 2 سے کم ہو کر ایک نشست رہ گئی ہے۔
اس کے علاوہ بلوچستان میں بڑے شہروں کی صوبائی اسمبلی کی نشستوں کی تعداد میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی ہے۔
الیکشن کمیشن ان ابتدائی حلقہ بندیوں پر اعتراضات کو سننے کے بعد حتمی حلقہ بندیوں کا اعلان کرے گا۔
الیکشن کمیشن کی رپورٹ کے مطابق 2023 کی مردم شماری کے حتمی نتائج کی بنیاد پر قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں کے حوالے سے کام کیا گیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق ’صوبےیا علاقے کی آبادی کو جنرل نشستوں کی کل تعداد سے تقسیم کیا گیا ہے اور قومی اسمبلی کی فی نشست اوسط آبادی یا کوٹہ حاصل کیا گیا ہے۔ اسی طرح، ایک صوبے کی آبادی کو صوبائی اسمبلی کے لیے مختص کردہ جنرل نشستوں کی کل تعداد سے تقسیم کیا گیا تھا تاکہ فی نشست کوٹہ حاصل کیا جا سکے‘۔
’نشستوں کی کل تعداد کا حساب لگاتے ہوئے 0.5 اور اس سے اوپر کے حصے کو عام طور پر ایک نشست کے طور پر لیا جاتا تھا اور 0.5 سے نیچے کے حصے کو نظر انداز کیا جاتا تھا۔ بلوچستان میں عجیب و غریب صورتحال کے باعث ایک سے زائد اضلاع کو جوڑ دیا گیا ہے، اسی طرح دوسرے صوبوں میں جہاں ضرورت پڑی وہاں بھی چند کلبز بنائے گئے ہیں‘۔