ایک انتہائی دائیں بازو کے گروپ پر پابندی کا اعلان کیے جانے کے بعد جرمن پولیس نے اس گروہ کے ارکان کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کردیا ہے۔
حکومت کی جانب سے اس گروہ کو ایک ایسا فرقہ قرار دیا گیا ہے جو ’شدید نسل پرست اور سام دشمن ہے‘ اور بچوں کو ”نازی نظریے“ کی طرف راغب کرنا چاہتا ہے۔
پولیس افسران نے بدھ کو 12 ریاستوں بشمول باویریا، بیڈن وورٹمبرگ اور برینڈنبرگ میں آرٹجیمین شافٹ نیٹ ورک میں اس گروہ کے 39 ارکان کے 26 اپارٹمنٹس پر دھاوا بولا۔
وزارت داخلہ نے کہا کہ اس ایسوسی ایشن کے تقریباً 150 ارکان ہیں اور اس کے کئی انتہائی دائیں بازو کے گروپوں سے روابط ہیں۔
وزارت داخلہ کے مطابق یہ اپنے عالمی نظریے کو پھیلانے کے لیے ’مذہب کے جعلی جرمن عقیدے کی تبلیغ کرتے ہیں جو انسانی وقار کے خلاف ہے‘۔
اس ایسوسی ایشن پر نازی دور کے ادب کا استعمال کرتے ہوئے نوجوانوں کو اپنے نسل پرست نظریات کی جانب راغب کرنے کی کوشش کرنے کا الزام ہے۔
اس گروہ نے کتابوں کا ایک آن لائن اسٹور کھول رکھا ہے جن میں بنیاد پرستی اور لوگوں کو راغب کرنے کیلئے مواد موجود ہے۔
جرمن وزیر داخلہ نینسی فیسر کا کہنا تھا کہ ’یہ دائیں بازو کی انتہا پسندی اور ان فکری طور پر مشتعل افراد کے خلاف ایک اور دھچکا ہے جو آج بھی نازی نظریات پھیلاتے ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’اس انتہائی دائیں بازو کے گروہ نے بچوں اور نوجوانوں کی نفرت آمیز تربیت کے ذریعے آئین کے نئے دشمن پیدا کرنے کی کوشش کی۔‘
خیال رہے کہ جرمنی نے حالیہ مہینوں میں دائیں بازو کے انتہا پسند گروپوں پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔
پچھلے ہفتے، اس نے امریکہ میں مقیم ”ہیمرسکنز“ نیو نازی گروپ کے مقامی چیپٹر کو غیر قانونی قرار دیا تھا جو سفیدفام بالادستی کے راک کنسرٹس کے لیے جانا جاتا ہے۔
جرمنی کی وفاقی انٹیلی جنس ایجنسی ”بی ایف وی“ کی جون میں پیش کردہ ایک رپورٹ کے مطابق جرمنی میں 2022 میں دائیں بازو کے انتہاپسندوں کی تعداد تقریباً 38,800 تھی، اور 2021 میں یہ تعداد 33,900 تھی۔
جبکہ ممکنہ طور پر پرتشدد سمجھے جانے والے لوگوں کی تعداد 13,500 سے بڑھ کر 14,000 ہو گئی ہے۔