پاکستان کے نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کا کہنا ہے کہ ’میں یہ سمجھتا ہوں کہ نو مئی کے واقعات موجودہ فوجی قیادت کے خلاف ایک بڑے منصوبے کا حصہ تھے۔یہ بھی واضح کیا کہ پی ٹی آئی کے ساتھ کہیں ڈیل ہورہی ہے نہ ہی ڈھیل۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ واقعات باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت کی گئی کوشش تھی جس کا مقصد موجود فوجی قیادت کی اتھارٹی کو ختم (ان ڈُو) کرنا یا کمپرومائز کرنا تھا۔
لندن میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے نگران وزیراعظم نے کہا کہ مجھے اس تجزیے میں کافی حد تک حقیقت کا پہلو نظر آتا ہے کہ نو مئی کو جو کچھ ہوا وہ طے شدہ منصوبہ تھا کہ موجودہ عسکری قیادت پر کیسے سمجھوتہ کیا جا سکتا تھا، آنے والے دنوں میں یہ معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہو گا تو اس کی تفصیل میں نہیں جاؤں گا لیکن میں اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ یہ ایک منصوبہ بنایا گیا تھا۔
نگران وزیراعظم انوار الحق نے کہا ہے کہ میری لندن میں کسی سیاسی رہنما یا سیاسی جماعت کے ساتھ کوئی ملاقات ہوئی ہے نہ یہاں آنے کا مقصد سیاسی ملاقاتیں کرنا ہے، میں یہاں حکومتی اور ریاستی امور سرانجام دینے کے لیے آیا ہوں۔
عمران خان کے ساتھ حکومت کی ڈیل یا ڈھیل سے متعلق سوال پر نگراں وزیراعظم نے کہا کہ ، ’نہ کہیں ڈیل ہے نہ کوئی ڈھیل ہے ’ میڈیا ایسی خبروں کا بھوکا ہے ، میں انہیں اہمیت نہیں دیتا۔
انہوں نے کہا پاکستان میں ہر وہ ملزم جو مجرم ہوجائے اسے ضرور سزا ملے گی یہی ایک ریاست کا اصول ہونا چاہئیے۔
ملک میں عام انتخابات کے بروقت انعقاد کے حوالے سے سوال پر انھوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن اپنی آئینی ذمہ داری پوری کرے گا اور بہت جلد تاریخ کے بارے میں سن لیں گے اور اس کا اعلان کردیا جائے گا۔
جب ان سے سوال کیا گیا کہ اس وقت نگران حکومت کو کون سے بڑے چیلنجز درپیش ہیں تو نگران وزیر اعظم نے کہا معیشت، اس کے علاوہ ہمیں کوئی چیلنج درپیش نہیں۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا الیکشن پاک فوج کی زیر نگرانی ہوں گے تو انھوں نے واضح جواب دیا کہ انتخابات الیکشن کمیشن کی زیر نگرانی ہوں گے، اس میں معاونت کے لیے نگران حکومت ہوگی جو ہدایات جاری کرے گی، عسکری، نیم عسکری اداروں سمیت جہاں جہاں جس حکومتی ادارے کی ضرورت ہو گی ہم ان کو ہدایات جاری کریں گے کہ انھیں کہاں معاونت کرنی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ صاف اورشفاف انتخابات یقینی بنانے کے لیے ہمارے پاس مقامی اور بین الاقوامی مبصرین ہوں گے، اگر بین الاقوامی اور مقامی مبصرین اور میڈیا، سول سوسائٹی نسبتاً یہ اشاریے دیتے ہیں کہ صاف اور شفاف انتخابات ہوئے ہیں تو میں سمجھتا ہوں کہ ہم اپنا کام پورا کر لیں گے۔
صحافی نے سوال کیا کہ الیکشن کمیشن میں عمران خان صاحب حصہ لے سکیں گے یا نہیں لے سکیں؟ ۔ اسی سوال کو دہراتے ہوئے نگراں وزیراعظم نے سوال پوچھنے والے سے استفسار کیا ، ’کیا آپ برطانوی شہری ہوں تو پاکستان میں انتخابی عمل کا حصہ بن سکیں گے‘۔
انہوں نے اپنی بات پر مزید زور دیتے ہوئے کہا کہ ’ہاں یا ناں‘ میں جواب دیں، آپ نے مجھ سے سوال کیا نا۔
جواب نفی میں ملنے پر انہوں نے کہا کہ، ’ ناں ، کیونکہ قانون آپ کو اجازت نہیں دیتا، اگر قانون کسی بھی سیاسی رہنما کو اجازت دے گا تو وہ انتخابات میں حصہ لے گا اوراگر اجازت نہیں دے گا تو حصہ نہیں لے گا’۔
انوار الحق کاکڑ نے واضح کیا کہ نگراں حکومت کا بحیثیت ایگزیکٹو اس میں کوئی کردار نہیں ہے، لوگ یہ نقطہ نہیں سمجھ پارہے کہ یہ سارے معاملات قانونی ہیں، سیاسی یا انتظامی نہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایسا نہیں ہوتا کہ کسی ضلع کا ڈپٹی کمشنر کسی کو بند کردے گا اور کہے گا تم الیکشن میں حصہ نہیں لے سکتے۔ جہاں تک قوانین اور طریقہ کار کا تعلق ہے اسے میں تبدیل نہیں کرسکتا اور کرنا بھی چاہوں تو میرے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں۔