پیمرا نے فیض آباد دھرنا فیصلہ کیخلاف نظرثانی واپس لینے کے لئے سپریم کورٹ میں متفرق درخواست دائرکردی۔
سپریم کورٹ میں فیض آباد دھرنے کی سماعت کل ہونے جارہی ہے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہ میں تین رکنی بنچ سماعت کرے گا، بینچ میں جسٹس امین الدین خان اورجسٹس اطہرمن اللہ بھی شامل ہیں۔
گزشتہ روز انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) کے ڈپٹی ڈائریکٹر فاعد اسداللہ خان نے سپریم کورٹ میں متفرق درخواست دائرکی تھی، جس میں کہا کہ انٹیلیجنس بیورو فیصلہ کیخلاف نظر ثانی واپس لینا چاہتا ہے۔
آئی بی نے استدعا کی کہ نظر ثانی درخواست واپس لینے کی اجازت دی جائے۔ انٹیلی جنس کے بعد اب پیمرا نے بھی فیض آباد دھرنا فیصلہ کیخلاف نظرثانی درخواست واپس لینے کا فیصلہ کیا ہے۔
پیمرا نے سپریم کورٹ میں نظرثانی درخواست واپس لینے کی متفرق درخواست دائرکردی ہے، جس میں مؤقف پیش کیا ہے کہ فیض آباد دھرنا فیصلہ کیخلاف نظرثانی درخواستیں زیرالتواء ہیں، پیمرا نظر ثانی درخواست کی پیروی نہیں کرناچاہتا۔
پیمرا کی درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ پیمرا کی متفرق درخوست واپس لینے کی استدعا منظور کی جائے۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ میں طویل عرصے بعد فیض آباد دھرنا نظر ثانی کیس سماعت کے لیے مقرر کیا گیا ہے، اور سپریم کورٹ میں نظرثانی درخواستوں پر سماعت 28 ستمبر کیلئے مقرر ہے۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے 2017 میں فیض آباد ٹی ایل پی کے دھرنے پر ازخود نوٹس لیا تھا۔ سپریم کورٹ نے اس مقدمے میں سخت آبزرویشن دی تھیں۔
آئی ایس آئی، وزارت داخلہ سمیت متاثرہ فریقین نے سپریم کورٹ میں 15 اپریل 2019 کو نظر ثانی درخواستیں دائر کی تھیں۔
آئی ایس آئی نے سپریم کورٹ کے فیض آباد دھرنا از خود نوٹس کیس کے 6 فروری کے فیصلے پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے نظر ثانی درخواست میں مؤقف اختیار کیا کہ فیصلے کی وجہ سے آرمڈ فورسز کی ساکھ کو سخت نقصان پہنچا ہے۔
آئی ایس آئی نے درخواست میں واضح کیا کہ پاک فوج میں حلف کی خلاف ورزی پر زیرو ٹالرینس ہے۔ اگر ایسا کوئی الزام ہو تو اس کی تفتیش کی جاتی ہے۔ درخواست میں عدالت عظمیٰ سے استدعا کی گئی کہ 6 فروری کے فیصلے پر نظر ثانی کی جائے۔
اٹارنی جنرل آف پاکستان کے ذریعے دائر کی جانے والی درخواست میں کہا گیا کہ عدالتی فیصلے میں دی گئی آبزرویشن سے ایسا لگتا ہے کہ آرمڈ فورسز نے اپنے حلف کی خلاف ورزی کی ہے۔ جیو اور ڈان ٹی وی کی نشریات بند کرنے سے متعلق فیصلے میں آبزرویشن بھی بے بنیاد ہیں۔
درخواست میں کہا گیا کہ آئی ایس آئی کیسے بتا سکتی تھی کہ تحریک لبیک پاکستان کا زریعہ آمدنی کیا ہے۔ یہ ہمارا دائرہ اختیار نہیں تھا جو عدالت پوچھتی رہی۔ عدالت نے مختلف ممالک کے حساس اداروں کا فیصلے میں ذکر کیا ہے لیکن حالات کا تذکرہ نہیں کیا۔
درخواست میں آئی ایس آئی کی جانب سے مؤقف اختیار کیا گیا کہ فورسز تنقید اور مخالف پروپیگنڈا پر دشمنوں کو جواب دے سکتی ہے لیکن جب عدالت کی جانب سے ایسی آبزرویشن آتی ہیں تو ملک کے دشمنوں کے خلاف آرمڈ فورسز اپنا دفاع نہیں کرسکتیں۔
فیصلے میں کہی گئی باتیں بے بنیاد اور آرمڈ فورسز کو بدنام کرنے کی کوشش ہے۔ آرمی چیف کو ایکشن لینے کی ہدایات بھی واضح نہیں لہذا ان پر عمل کیسے ہو۔ پاک فوج کے ترجمان کا بیان کہ تاریخ ثابت کرے گی کہ آیندہ انتخابات صاف شفاف ہونگے کو حقائق سے ہٹ کر میڈیا پر پیش کیا گیا۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ فیصلے میں رینجرز اہلکار کے دھرنا مظاہرین کو پیسے دینے کا ذکر ہے جس کے حالات کا جائزہ نہیں لیا گیا۔
یہ مؤقف بھی اختیار کیا گیا کہ ٹی ایل پی اور حکومت کے درمیان معاہدہ ہوا تو مظاہرین نے کہا کہ گھر واپس جانے کے پیسے نہیں۔ حکومت اور مظاہرین کے معاہدے کو سامنے رکھتے ہوئے ان مظاہرین کو گھر واپس جانے کے پیسے دیے گئے۔ جن مظاہرین کے خلاف مقدمات درج نہ ہوئے اور وہ اپنے گھروں کو واپس چلے گئے۔ عدالت اس پہلو کا جائزہ نہیں لے سکی۔
آئی ایس آئی نے درخواست میں واضح کیا کہ پاک فوج میں حلف کی خلاف ورزی پر زیرو ٹالرینس ہے، اگر ایسا کوئی الزام ہو تو اس کی تفتیش کی جاتی ہے، عدالت نے آئین کی شق 184/3 کا استعمال مناسب نہیں کیا۔
درخواست میں استدعا کی گئی کہ فیصلے پر نظرثانی کرکے آئی ایس آئی اور آرمڈ فورسز کے خلاف دی گئی آبزرویشنز کو کالعدم قرار دیا جائے۔
11 اپریل 2019 کو تحریک انصاف، ایم کیو ایم نے بھی فیض آباد دھرنا کیس فیصلے پر نظرثانی درخواستیں دائر کی تھیں۔ ایم کیو ایم نے ایڈو کیٹ عرفان قادر اور پی ٹی آئی نے علی ظفر ایڈوکیٹ کے توسط سے درخواستیں سپریم کورٹ میں دائر کیں۔
ایم کیوایم کی درخواست میں موقف اپنایا گیا کہ عدالتی فیصلہ آئین کی شقوں 10 اے۔ 4۔5۔25 کی خلاف ورزی ہے۔فیض آباد دھرنا کیس کا پیرا گراف 22 قانون کے خلاف ہے۔ فیصلے کے پیراگراف 23 اور 24 مفروضوں کی بنیاد پر ہے۔ ان پیراگرافس میں 12مئی 2007 اور فیض آباد دھرنے کا موازنہ کیا گیا ہے۔
پی ٹی آئی کی درخواست میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ اپنے فیصلے میں فیض آباد دھرنے کا موازنہ 2014 کے پی ٹی آئی کے دھرنے کے ساتھ کیا ہے۔سپریم کورٹ 6 فروری 2019 کے فیصلے پر نظر ثانی کرے۔