سابق وزیراعظم شاہد خاقان اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما شاہد خاقان عباسی کا کہنا ہے کہ ’اقتدار تو کسی اور طریقے سے ملتا ہے‘ مستقبل کے لائحہ عمل کے ساتھ نئی پارٹی کی ضرورت ہے۔
شاہد خاقان عباسی نے گزشتہ روز بھی آج نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ ملک میں نئی سیاسی جماعت کی گنجائش موجود ہے۔
الیکشن کمیشن کی جانب سے ملک میں آئندہ عام انتخابات جنوری میں کرائے جانے کا اعلان ہوچکا ہے۔ اس کے بعد سے سیاسی جماعتیں اور رہنما خاصے متحرک دکھائی دے رہے ہیں۔
ایسے میں سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی سمجھتے ہیں کہ مستقبل کے لائحہ عمل کے ساتھ نئی پارٹی کی ضرورت ہے۔
نجی ٹی وی کے پروگرام میں دوران گفتگو جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ مصطفیٰ نواز کھوکھر کی ممکنہ نئی جماعت کا حصہ ہوں گے؟ تو انہوں نے کہا کہ آج جو ملک کے حالات ہیں، اس میں ایک نئی اور مؤثر جماعت بنے گی۔ ضروری نہیںکہ میں اس جماعت میں ہوں یا نہیں، ایسی جماعت ہو جس کا مقصد واضح ہو کہ کیا اور کیسے کرنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ نئی پارٹی کا مقصد اگر اقتدار ہے تو پھر بات نہیں بنے گی ’اقتدار تو کسی اور طریقے سے ملتا ہے‘۔
رہنما ن لیگ نے کہا کہ 35 سال سے ن لیگ کیساتھ ہوں آج میرے پاس لوگوں کے سوالات کا جواب نہیں ہے۔ ہم وہ فیصلے نہیں کر پائے جس کی ضرورت تھی۔ 16ماہ بہت ہوتے ہیں اصلاحات کا کوئی عمل شروع نہیں کیا۔
سابق وزیر اعظم شاہد خاقان کا کہنا تھا کہ امید ہے کہ بڑی جماعتیں بیٹھ کر آگے کے راستے کا تعین کریں گی۔
یاد رہے کہ شاہد خاقان عباسی نے گزشتہ روز آج نیوز کے پروگرام “ فیصلہ آپ کا“ میں گفتگو کرتے ہوئے بھی نئی سیاسی جماعت بنانے کا اشارہ دیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ میں ن لیگ میں شامل ہوں، نئی جماعت بنانا کسی مسئلے کا حل نہیں، تاہم ملک میں نئی سیاسی جماعت کی گنجائش موجود ہے۔
انہوں نے کہا کہ پارٹی میں 2 بیانیوں کی گنجائش نہیں ہے، مختلف بیانیے سے ابہام پیدا ہوتا ہے، شہبازشریف کو اپنے بیان کی وضاحت کرنی چاہیے، شہبازشریف کی میڈیا سے دوری سے ابہام بڑھا ہے۔
شاہد خاقان نے مزید کہا کہ میں اقتدار اورعہدوں کا متلاشی نہیں، 3 سال میں ہر سیاسی جماعت اقتدار کا حصہ رہی ہے، 90 فیصد کاموں میں طاقتوں کو عمل دخل نہیں ہوتا، جو آپ کرسکتے ہیں وہ تو کریں۔ سرمایہ کاروں کو اعتماد دلایا جاسکتا ہے، یہ فیصلے خود کر لیتے تو ایس آئی ایف سی کی ضرورت نہ ہوتی۔
لیگی رہنما نے کہا کہ ہمیں ماضی سے سبق حاصل کرنا ہے، ملک میں جو کچھ ہوا، عوام کے سامنے آنا چاہیے۔ تمام لیڈر محب وطن ہیں، ساتھ بیٹھ کر فیصلہ کریں، تمام اسٹیک ہولڈرز آگے کے راستے کا تعین کریں، عوام کے مسائل کے حل کا ایجنڈا تیار کریں، الیکشن سے پہلے مستقبل کا ایجنڈا تیار ہونا چاہیے۔
پی ڈی ایم حکومت کی بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ 16ماہ طویل عرصہ ہوتا ہے، 16 ہفتے یا 16 گھنٹے میں بہت کچھ ہوسکتا ہے، لیکن 16ماہ وہی کام ہوئے جو چیئرمین پی ٹی آئی کررہے تھے۔اگر جنرل باجوہ ریٹائرڈ رکاوٹ تھے تو حکومت چھوڑ دیتے ۔۔ ان کے جانے کے بعد بھی آٹھ ماہ ملے، کچھ کام کر لیتے، وہ فیصلے نظر نہیں آئے جو ہونے چاہئیں تھے۔