Aaj Logo

اپ ڈیٹ 26 ستمبر 2023 09:28pm

صرف سنیارٹی کی بنیاد پر ترقی نہیں دی جا سکتی، میرٹ و اہلیت بنیادی جزو ہے، سپریم کورٹ

سپریم کورٹ نے اعلیٰ عدلیہ میں ججز کی تعیناتی پر اہم فیصلہ جاری کر دیا۔ فیصلے کے مطابق جوڈیشل کمیشن کی سفارشات کا پارلیمانی کمیٹی جائز نہیں لے سکتی، پارلیمانی کمیٹی کے ارکان کی مہارت جوڈیشل کمیشن ممبران سے یکسر مختلف ہے۔ پشاورہائیکورٹ کےایڈیشنل ججزکی تعیناتی کے کیس میں سپریم کورٹ کے جسٹس اطہرمن اللہ نے اختلافی نوٹ بھی جاری کیا۔

سپریم کورٹ نے فیصلہ میں لکھا کہ عدلیہ کی آزادی ملک کو آئین کے تحت چلانے کیلئے بنیادی اہمیت کی حامل ہے، آئین میں ریاست کے تینوں ستونوں کے اختیارات واضح ہیں۔

فیصلے کے مطابق ’سنیارٹی کا اصول سول سروس میں محکمانہ پروموشن کمیٹی کیلئے بنیادی جزو ہے، صرف سنیارٹی کی بنیاد پر کسی کو ترقی نہیں دی جا سکتی، ترقی اور اعلیٰ تقرری کیلئے سنیارٹی کیساتھ میرٹ اور اہلیت بنیادی جزو ہے‘۔

سپریم کورٹ نے فیصلے میں مزید کہا کہ سنیارٹی کا جائزہ اُسی وقت لیا جاتا ہے جب میرٹ اور اہلیت پر تمام امیدوار یکساں ہوں، میرٹ سسٹم کے تحت ہی اہل اور قابل افراد کو آگے آنے کا موقع ملتا ہے۔

فیصلے کے مطابق ججز تقرری کیلئے قائم جوڈیشل کمیشن میں تمام ارکان یکساں اہمیت کے حامل ہیں، جوڈیشل کمیشن کی سفارشات کا پارلیمانی کمیٹی جائز نہیں لے سکتی، پارلیمانی کمیٹی کے ارکان کی مہارت جوڈیشل کمیشن ممبران سے یکسر مختلف ہے۔

سپریم کورٹ کے مطابق جوڈیشل کمیشن کا کام نامزد ججز کی اہلیت اور قابلیت کا جائزہ لینا ہے، پارلیمانی کمیٹی اور جوڈیشل کمیشن دونوں اپنی حدود میں رہ کر ہی کام کر سکتے ہیں۔

عدالت عظمیٰ نے فیصلے میں مزید لکھا کہ پارلیمانی کمیٹی کا فیصلہ مفروضوں اور من پسند آبزرویشنز پر مبنی نہیں ہوسکتا، پارلیمانی کمیٹی ججز کے نام منظور یا مسترد کر سکتی ہے، کمیشن کو واپس نہیں بھیج سکتی۔

پشاور ہائیکورٹ فیصلے کیخلاف دائر اپیلیں خارج

فیصلے کے مطابق عدالتوں کو ماضی کے فیصلوں کا احترام کرنا چاہیے۔ سپریم کورٹ نے پشاور ہائی کورٹ فیصلے کیخلاف دائر اپیلیں خارج کر دیں۔

ججز تقرری کیلئے قائم پارلیمانی کمیٹی نے جوڈیشل کمیشن کو سنیارٹی اصول کے مطابق سفارشات کا جائزہ لینے کی ہدایت کی تھی۔

پشاور ہائی کورٹ نے پارلیمانی کمیٹی کی سفارش کالعدم قرار دی تھی جسے سپریم کورٹ نے برقرار رکھا ۔

جسٹس اطہرمن اللہ کا اختلافی نوٹ

’من مانی فیصلے کا غیر منظم استعمال عدلیہ کی آزادی کو ختم کرتا ہے‘

پشاورہائیکورٹ کے ایڈیشنل ججز کی تعیناتی کے کیس میں سپریم کورٹ کے جسٹس اطہرمن اللہ نے اختلافی نوٹ جاری کیا۔

اختلافی نوٹ میں جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ عدلیہ کی داخلی اور ادارہ جاتی آزادی کے لیے تقرریوں میں شفافیت، احتساب بنیادی اصول ہیں، شفاف عمل کو اپنا کر ہی عدالتی آزادی کو فروغ دیا جاتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ میرٹ پر جج کی تقرری اہل افراد کی شناخت سے تقرری تک شفافیت سے ہی ممکن ہے، پہلے سے طے شدہ معیار سے نامزدگی میرٹ پر نہیں کی جا سکتی، اہل افراد کی نشاندہی کے مرحلے پر چیف جسٹس کی پیدا کردہ رکاوٹ نے کمیشن کو آئینی اختیار سے روک دیا۔

اختلافی نوٹ کے مطابق ایوب خان کے دور میں ججز کی تعیناتیوں کے امیدواروں کے انٹریوز کیے جاتے تھے، سپریم کورٹ نے دو عدالتی فیصلوں میں پارلیمان کے اختیارات کو غیر موثر کیا، سپریم کورٹ کے ان دو فیصلوں سے تمام تر اختیارات چیف جسٹس کو مل گئے، سپریم کورٹ کے فیصلوں کے تحت چیف جسٹس کو لامتناہی اختیارات مل گئے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے لکھا کہ اس وقت ججز کی تقرری جج ہی کرتے تھے، آئینی ترمیم کے بعد ججز کی تقرری کا طریقہ کار تبدیل کیا گیا، کئی مرتبہ مارشل لاء کی توثیق اور سنگین غداری کو قانونی جواز دیا گیا، ماضی میں پارلیمنٹ کی توہین کرنے والوں کو استثنیٰ دیا گیا۔

نوٹ میں مزید کہا گیا کہ ماضی میں سپریم کورٹ نے ایک منتخب وزیراعظم کو تختہ دار پر لٹکایا ، سپریم کورٹ نے تین منتخب وزرائے اعظم کو نااہل کیا، یہ تمام اقدامات چند غیر منتخب ججز نے سرانجام دیے۔

سپریم کورٹ کے جج نے اپنے نوٹ میں مزید لکھا کہ کسی فوجی آمر یا اسکے سہولت کار کو سنگین غداری کے مقدمے کے تحت قانون کے کٹہرے میں کھڑا نہیں کیا گیا، یہ سب کچھ گزشتہ سات دہائیوں میں اس وقت ہوا جب جج ہی ججز کی تقرری کرتے تھے، جب جج ہی ججز کو تعینات کرتے تھے اس وقت بھی کہا جاتا تھا عدلیہ آزاد نہیں،

جسٹس اطہر من اللہ نے لکھا کہ جوڈیشل کمیشن ارکان کی بھاری اکثریت حاضر سروس اور ریٹائرڈ ججز پر مشتمل ہے، جوڈیشل کمیشن کا ججز تقرر کرنا ایک انتظامی عمل ہے، جوڈیشل کمیشن کو چاہیے ججز کی تقرری پسند نہ ناپسند پر نہ کرے، عدلیہ کی آزادی کے لیے اعلیٰ عدلیہ میں تقرریاں شفاف ہونی چاہئیں، اعلیٰ عدلیہ میں ججز کی تعیناتیاں میرٹ پر ہونی چاہیے، احتساب کے بغیر صوابدیدی اختیار سے عدلیہ کی آزادی کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔

Read Comments