جہاں دنیاتیزی سے مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی کے سفرمیں آگے بڑہ رہی ہے وہیں انسانی زندگی میں اسکے اثرات بھی بہت تیزی سےدیکھنے میں آرہے ہیں۔ مختلف ممالک کی کمپنیوں نے اب انسانوں کے بجائے مصنوعی ذہانت کی خدمات لینا شروع کر دی ہیں۔
چین میں ایک نیا رجحان شروع ہو گیا ہےوہاں اب مختلف کمپنیاں اپنی اشیا کی فروخت کے لیے اپنے اشتہارات میں انسانوں کے بجائے مصنوعی ذہانت کی حامل ماڈل استعمال کر رہی ہیں، سونے پہ سہاگہ ان مصنوعی ماڈلز پر انسان ہونے کا ہی گمان ہوتا ہے۔
پاکستانی انفوٹینمنٹ چینل مصنوعی ذہانت والا پہلا ٹاک شو لے آیا
کیا مصنوعی ذہانت کیلئے بھی تکنیکی معیارات کی ضرورت ہے
ایک ہزار ماہرین نے ’مصنوعی ذہانت‘ کو انسانیت کیلئے خطرہ قرار دے دیا
ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ 2030 تک صرف چین میں اس ٹیکنالوجی کی صنعت 42 ارب ڈالر تک پہنچ سکتی ہے، توجہاں یہ ٹیکنالوجی انسانوں کے لئے فائدہ مند ہے وہیں یہ نقصان کا باعث بھی بن سکتی ہے۔
اہم اور خطرناک بات یہ ہے کہ یہ ٹیکنالوجی بہت تیزی سے پوری دنیا میں پھیل رہی ہے ، اور آنے والے چند برسوں میں انسانوں کی جگہ روبوٹس کام کریں گے۔ ٹیکنالوجی کا یہ پہلوہم (انسانوں) کے لیے نقصان دہ ہو گا۔
واضح رہے کہ ایلون مسک اوپن آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے بانیوں میں سے تھےجنہوں نے 2017 کے آخرمیں لانچ ہونے پرفنڈنگ کی تھی، بظاہرایلون بھی اس کام کی مخالفت کرتے ہوئے دلائل دے رہے ہیں کہ نئے سسٹمز کو غلط طریقے سے منافع کمانے کیلئے بنایا جارہا ہے۔