Aaj Logo

شائع 23 ستمبر 2023 09:32pm

سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیخلاف کیس کی کاز لسٹ جاری

سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف کیس کی کاز لسٹ جاری کردی گئی۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں فل کورٹ 3 اکتوبر کو سماعت کرے گا۔

عدالت نے 25 ستمبر تک فریقین سے تحریری جوابات طلب کر رکھے ہیں۔

ذرائع کے مطابق کیس کی سماعت پی ٹی وی پر براہ راست نشر کی جائے گی۔

18 ستمبر کو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں قائم فل کورٹ نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف سماعت کی تھی، جس کی سماعت براہ راست سرکاری ٹی وی سے نشر کی گئی، فل کورٹ میں سپریم کورٹ کے تمام 15ججز شامل تھے۔

سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف دائر اپیل پر سماعت تقریبا 7 گھنٹے سے زائد جاری رہی اور پھر سماعت 3 اکتوبر تک ملتوی کردی گئی۔

کیس کا پس منظر

پی ڈی ایم دور میں منظور کیے گئے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف عدالت عظمیٰ میں ایک مقدمہ کئی ماہ سے زیر التوا ہے۔

سابق چیف جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں8 رکنی بینچ نے سپریم کورٹ بارایوسی ایشن کی درخواست حکم امتناع جاری کیا تھا۔ اس کے بعد سماعت غیرمعینہ مدت تک کے لیے ملتوی کردی گئی تھی۔

یہ کیس 15 ستمبر بروز جمعہ کو رجسٹرار آفس کی جانب سے سپریم کورٹ میں 18 ستمبر کو سماعت کے لئے مقرر کیا گیا تھا اور رجسٹرار آفس نے فریقین کو نوٹسز جاری کردیے تھے۔

اس مقدمے کی اہمیت یہ ہے کہ اگر پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ بحال ہوگیا تو اس کے بعد بنائے گئے بینچز پر سوال اٹھادیے جائیں گے۔ جس میں نیب ترامیم کیس کے لیے بنایا گیا بینچ بھی شامل ہے۔

سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کیس سماعت کے دوران جسٹس منصورعلی شاہ نے ریمارکس میں کہا تھا کہ پہلے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کا فیصلہ کیا جائے۔ انہوں نے بار بار فل کورٹ بینچ بنانے کی تجویز بھی دی تاہم سابق چیف جٹس عمر عطا بندیال نے ان دونوں تجاویز پر عمل کرنے کے بجائے اپنے آخری ورکنگ ڈے یعنی ہفتہ 15 ستمبر کو نیب ترامیم پر فیصلہ دے دیا تھا۔

سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023 کیا ہے؟

پی ڈی ایم دور حکومت میں بینچز کی تشکیل کے حوالے سے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر کے نام سے ایک قانون منظور کیا گیا تھا جس میں کہا گیا کہ عدالت عظمیٰ کے سامنے کسی وجہ، معاملہ یا اپیل کو چیف جسٹس اور دو سینئر ترین ججز پر مشتمل ایک کمیٹی کے ذریعے تشکیل دیا گیا بینچ سنے گا اور اسے نمٹائے گا، کمیٹی کے فیصلے اکثریت سے کیے جائیں گے۔

عدالت عظمیٰ کے اصل دائرہ اختیار کو استعمال کرنے کے حوالے سے قانون میں کہا گیا کہ آرٹیکل 184 (3) کے استعمال کا کوئی بھی معاملہ پہلے مذکورہ کمیٹی کے سامنے رکھا جائے گا۔

اس حوالے سے کہا گیا کہ اگرکمیٹی یہ مانتی ہے کہ آئین کے حصہ دوم کے باب اول میں درج کسی بھی بنیادی حقوق کے نفاذ کے حوالے سے عوامی اہمیت کا سوال پٹیشن کا حصہ ہے تو وہ ایک بینچ تشکیل دے گی جس میں کم از کم تین ججز شامل ہوں گے، سپریم کورٹ آف پاکستان جس میں اس معاملے کے فیصلے کے لیے کمیٹی کے ارکان بھی شامل ہو سکتے ہیں۔

آرٹیکل 184 (3) کے دائرہ اختیار کا استعمال کرتے ہوئے عدالت عظمیٰ کے بینچ کے کسی بھی فیصلے پر اپیل کے حق کے بارے میں بل میں کہا گیا کہ بینچ کے حکم کے 30 دن کے اندر اپیل سپریم کورٹ کے لارجر بینچ کے پاس جائے گی، اپیل کو 14 دن سے کم مدت کے اندر سماعت کے لیے مقرر کیا جائے گا۔

مزید پڑھیں

پریکٹس اور پروسیجر ایکٹ کیس میں حکم امتناع ختم، از خود نوٹس کےاختیارات چھوڑنے کیلئے تیار ہوں، چیفجسٹس

سپریم کورٹ لائیو اسٹریمنگ معاملے پر چیف جسٹس نے 2 رکنی ججز کمیٹیبنادی

7 گھنٹے سے زائد کی براہ راست دکھائی گئی سماعت اور 3وقفے

بل میں قانون کے دیگر پہلوؤں میں بھی تبدیلیاں تجویز کی گئی ہیں، اس میں کہا گیا کہ ایک پارٹی کو آئین کے آرٹیکل 188 کے تحت نظرثانی کی درخواست داخل کرنے کے لیے اپنی پسند کا وکیل مقرر کرنے کا حق ہوگا۔

اس کے علاوہ یہ بھی کہا گیا کہ کسی وجہ، اپیل یا معاملے میں جلد سماعت یا عبوری ریلیف کے لیے دائر کی گئی درخواست 14 دنوں کے اندر سماعت کے لیے مقرر کی جائے گی۔

قانون میں کہا گیا کہ اس کی دفعات کسی بھی دوسرے قانون، قواعد و ضوابط میں موجود کسی بھی چیز کے باوجود نافذ العمل ہوں گی یا کسی بھی عدالت بشمول سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے فیصلے پر اثر انداز ہوں گی۔

Read Comments