اسلام آباد ہائیکورٹ نے آڈیو لیکس کے خلاف کیس کی سماعت کا تحریری حکمنامہ جاری کرتے ہوئے شہریوں کی الیکٹرانک سرویلنس اور ٹیلی فون کالز ریکارڈنگ کی صلاحیت سے متعلق ادارہ جاننے کے لیے وزیراعظم آفس، وزارت داخلہ اور وزارت دفاع سے دوبارہ رپورٹ طلب کرلی۔
جسٹس بابر ستار نے آڈیو لیکس کے خلاف کیس کی سماعت کا تحریری حکمنامہ جاری کیا۔
عدالت نے فیصلے میں استفسار کیا ہے کہکس ایجنسی کے پاس شہریوں کی الیکٹرانک سرویلنس اور کالز ریکارڈنگ کی صلاحیت ہے، جواب دیا جائے۔
ہائیکورٹ کے مطابق وفاقی حکومت کے کسی ڈویژن نے اپنی رپورٹ میں عدالتی سوالوں کے جوابات نہیں دیے، عدالت تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے رپورٹ جمع کرانے کا ایک اور موقع دے رہی ہے۔ وفاقی حکومت اور ماتحت ادارے عدالتی سوالوں کے جوابات پر مشتمل نئی رپورٹس جمع کرائیں۔
حکمنامے میں کہا گیا ہے کہ بصورت دیگر عدالت انٹیلی جنس ایجنسیوں اور ٹیلی کام آپریٹرز سے براہِ راست جواب طلب کرے گی۔
جسٹس بابر ستار نے قراردیا کہ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی بھی اپنی نظرثانی شدہ رپورٹ جمع کرائے اور بتائے کہ قانونی مقاصد کیلئے فون کالز ریکارڈنگ کا اختیار کس کے پاس ہے؟ فون کالز ریکارڈنگ کی اجازت کا فریم ورک اور میکانزم کیا ہوتا ہے؟پی ٹی اے نے ٹیلی کام آپریٹرز کو کالز ریکارڈنگ کی اجازت دینے کیلئے ہدایات جاری کیں؟ ۔
فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ پی ٹی اے کی ایسی ہدایات اور لائسنس فراہمی کی تفصیلات بھی رپورٹ کا حصہ بنائی جائیں۔
آڈیو لیکس کیس کے تحریری فیصلے کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ میں کیس کی آئندہ سماعت 31 اکتوبر کو ہو گی۔