خواتین کو ہمیشہ سے صنف نازک کہا جاتا رہا ہے، لیکن آج زندگی کے ہر شعبہ میں خواتین نے اپنے قدم جمائے ہیں اور ہر ممکن حد تک اپنی ذمہ داریوں کو پورا بھی کیا ہے۔ چاہے وہ روزمرہ کے گھریلو کام ہوں یا جانوروں اور پرندوں کی نگہداشت۔
قدیم زمانے میں، قازقستان کی عورتیں خانہ بدوش قازق برادری میں مردوں کے شانہ بشانہ شکار کرتی تھیں۔ التائی (منگولیا) میں عقاب کے ذریعے شکار کرنا ایک قدیم ثقافت ہے اور وہاں خواتین اس شکار میں شامل ہوتی ہیں۔
الجزیرہ کے مطابق التائی میں سنہ 2013 میں منگولیا میں مقیم قازق خواتین نے اس وقت عالمی توجہ حاصل کی جب ایک نوجوان عقاب شکاری خاتون ایشولپن نورگیف کی اسرائیلی فوٹوگرافر ایشر سویڈنسکی کی جانب سے لی گئی ایک وائرل تصویر موضوع بحث بن گئی۔
وہ 2014 میں برطانوی ہدایت کار اوٹو بیل کے ساتھ وطن واپس آئے تھے، جنہوں نے اس نوجوان خاتون کے بارے میں ایک دستاویزی فلم بنائی تھی۔
کہانی میں ان کی قازق ثقافت سے باہر ہونے پر توجہ مرکوز کی گئی ہے، جسے بیل نے ایک ’الگ تھلگ‘ کمیونٹی کے طور پر بیان کیا ہے، جس میں ’عورت کیا کر سکتی ہے‘ اس کے بارے میں ایک خاص قسم کی لاعلمی ہے۔
یہ تبصرے جنوری 2016 میں سی بی ایس کے ماؤنٹین مارننگ شو میں ایک پریس انٹرویو کے دوران کیے گئے تھے ، جہاں انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ وہ ’دو ہزار سال پرانی مردوں کے غلبے والی تاریخ میں عقاب کا شکار کرنے والی پہلی خاتون ہیں‘۔ لیکن قازقوں اور مؤرخین کا کہنا ہے کہ یہ سچ نہیں ہے۔
تیئس سالہ سیمسر کا تعلق ایک خانہ بدوش قازق خاندان سے ہے جس میں عقاب کا شکار کرنے والے مشہور افراد شامل ہیں۔ ان کے دادا اجکن تبیسبیک اور والد شوخان کئی دہائیوں میں کئی قومی ٹورنامنٹ جیت چکے ہیں۔ ان کے ناموں نے بین الاقوامی فوٹوگرافروں اور سیاحوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کرائی ہے جو منگولیا کی عقاب شکار کی ثقافت کی ایک جھلک حاصل کرنے کے لیے التائی آتے ہیں۔
التائی وہ جگہ ہے جہاں منگولیا، قازقستان، روس اور چین ملتے ہیں۔
جب ان سے عقاب کے ساتھ شکار کرنے والی خواتین کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے الجزیرہ کو بتایا کہ ’ہاں، اگر وقت ہو اور گھوڑے ہوں تو عورتیں شکار کر سکتی ہیں۔‘ لیکن ان کی تصویران لوگوں میں شامل نہیں ہے جہاں تمام فیملی کے شکار کی تصاویر دیوار پر ہیں۔
وہ اپنے عقاب کے شکار کے بارے میں بہت جوش و خروش سے بتاتی ہیں کہ جب وہ گھوڑے پہ سوار ہوکر نکلتی ہیں ’تو انہیں ایک فخر کا احساس ہوتا ہے جیسے وہ آسمانوں میں سفر کر رہا ہو۔ اڑتے ہوئے عقاب کی آواز، پہاڑوں اور میدانوں کی تازہ ہوا - یہ سب حیرت انگیزہوتا تھا.‘
ان کے مطابق ’ایک ناقابل بیان احساس ہے جب آپ عقاب ٹوماگا(اسکی ٹوپی) اتارتے ہیں اور اسے شکار کے لیے بھیجتے ہیں۔
اسٹینفورڈ یونیورسٹی کی تاریخ دان ایڈرین میئر کہتی ہیں کہ ’عقاب کے شکار میں ہمیشہ خواتین شامل ہوتی ہیں‘جنہوں نے 2016 میں اپنے تحقیقی مقالے دی ایگل ہنٹرس- قدیم روایات اور نئی نسلوں میں اس عمل اور اس کی تاریخ کی تفصیل بیان کی ہے۔
آثار قدیمہ سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ قدیم زمانے میں عقاب کے شکار زیادہ عام تھے۔