سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے اسرائیل کو تسلیم کرنے اور اس کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کے حوالے سے مذاکرات کی تصدیق کردی ہے۔ محمد بن سلمان نے امریکی ٹی وی چینل فاکس نیوز کو انٹرویو دیا ہے جس میں انہوں نے کئی اہم معاملات پر بات کی۔
فاکس نیوز کے مطابق محمد بن سلمان کا یہ پہلا انگریزی انٹرویو ہے۔
سعودی ولی نے کہا کہ اسرائیل سے تعلقات معمول پر لانے کیلئے پیشرفت ہورہی ہے، ہر گزرتے دن کے ساتھ ہم قریب تر ہوتے جارہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سعودی عرب چاہتا ہے کہ فلسطینیوں کی مشکلات کم ہوں اور مشرق وسطی میں اسرائیل کا کردار تسلیم کیا جائے۔
محمد بن سلمان نے کہا کہ ایران نے ایٹمی ہتھیار حاصل کیے تو مملکت کو بھی ضرورت ہوگی، کسی بھی ملک کے جوہری ہتھیار حاصل کرنے پر تشویش ہے، دنیا ایک نئے ہیروشیما کو برداشت نہیں کرسکتی، ایٹمی ہتھیار استعمال کرنے والے کو دنیا سے لڑنا پڑے گا، جوہری ہتھیار رکھنے کا کوئی فائدہ نہیں، جوہری ہتھیار کو استعمال نہیں کیا جاسکتا۔
محمد بن سلمان نے کہا کہ اسامہ بن لادن سعودی عرب کا بھی دشمن تھا، القاعدہ نے سعودی عرب کو بھی نقصان پہنچایا، ماضی میں ہمارے بہت سے مسائل تھے، اب ہم بڑے وژن کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں، ہماری ترجیح معیشت کو مضبوط بنانا ہے، جلد مضبوط معیشت کے طور پر دنیا میں کھڑے ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ جی 20 کانفرنس میں ہمارا بھارت کے ساتھ مقابلہ تھا، وژن 2030 کے اہداف کو تیزی سے حاصل کررہے ہیں، امریکا کے ساتھ تعلقات مضبوط اور مستحکم رہےہیں۔
امریکی نشریاتی ادارہ ”فاکس نیوز“ سعودی عرب کی تبدیلی پر دو روزہ خصوصی پروگرام نشر کر رہا ہے، جس میں سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو بھی پیش کیا گیا۔
فاکس نیوز کے چیف پولیٹیکل اینکر بریٹ بائر نے یہ انٹرویو لیا۔
چینل کے تجربہ کار براڈکاسٹر بریٹ بائر اس وقت سعودی عرب میں ہیں جہاں انہیں تیل، سماجی اصلاحات، اقتصادی تنوع اور امریکہ کے ساتھ تعلقات پر بات کرنے کے لیے کئی اعلیٰ حکام تک وہ رسائی دی گئی ہے جو ان کے بقول آج تک کسی کو نہیں ملی۔
انٹرویو سے قبل فاکس نیوز نے اعلان کیا کہ بریٹ بائر شہزادہ محمد بن سلمان سے ممکنہ طور پر سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل، مملکت میں خواتین کے حقوق اور ان کی آزادی، سعودی عرب کی تیزرفتار ترقی اور دیگر ایسے موضوعات پر گفتگو کریں گے جو مشکل سمجھے جاتے ہیں۔
بائر نے چینل کی خصوصی کوریج کے پرومو میں کہا کہ ’یہ ملک دنیا کے سب سے بڑے تیل پیدا کرنے والے ممالک میں سے ایک ہے، اسلام کی اصل، دنیا کا سب سے بڑا ریت کا صحرا، دنیا کا سب سے بڑا نخلستان، دنیا کا سب سے بڑا ہوائی اڈہ‘۔
انہوں نے کہا کہ ’سیاسی طور پر یہ کرہ ارض پر ایک اہم ترین مقام ہے، عربوں اور مسلمانوں کے ثقافتی مرکز کے طور پر اس کا اہم اسٹریٹجک مقام ہے‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’اگلی دو راتوں میں ہم آپ کے لیے خصوصی طور پر پردے کے پیچھے کی بادشاہت سامنے لائیں گے تاکہ آپ کو دکھایا جا سکے کہ یہاں کیا ہے، اس کی خوبصورتی، اس کی انفرادیت، اور عالمی معاملات میں اس کا بڑھتا ہوا اہم کردار کیا ہے۔‘
بریٹ بائر نے سعودی عرب کے وزراء برائے سیاحت، معیشت، توانائی اور کھیل سے بھی ملاقات کی، تاکہ یہ دریافت کیا جا سکے کہ کس طرح مملکت کا وژن 2030 سماجی اصلاحات اور معاشی تنوع کا ایجنڈا ملک کو تیل کی پیداوار پر انحصار سے دور کر رہا ہے اور پوری نئی صنعتوں میں توسیع کر رہا ہے۔
امریکی صحافی نے اس پروگرام کے لیے زیادہ تر وقت سعودی عرب کے تاریخی شہر الدرعیہ میں گزارا جہاں سے سعودی مملکت کی بنیاد پڑی تھی۔